قاضی شرف الدین مولانا حسام الدین ملتانی کے یار تھے جو سلف کی سیرت و صورت رکھتے اور فخر خلف تھے آپ کو قاضی شرف الدین فیروز گہی بھی کہتے تھے۔ آپ وفور علم اور زہد و تقوی کے ساتھ آراستہ اور ترک تکلف سے پیراستہ تھے قرآن مجید کے حافظ اور درگاہ سبحانی کے عاشق تھے۔ اگر کوئی شخص آپ کو دیکھتا تو بے ساخ ۔۔۔۔
قاضی شرف الدین مولانا حسام الدین ملتانی کے یار تھے جو سلف کی سیرت و صورت رکھتے اور فخر خلف تھے آپ کو قاضی شرف الدین فیروز گہی بھی کہتے تھے۔ آپ وفور علم اور زہد و تقوی کے ساتھ آراستہ اور ترک تکلف سے پیراستہ تھے قرآن مجید کے حافظ اور درگاہ سبحانی کے عاشق تھے۔ اگر کوئی شخص آپ کو دیکھتا تو بے ساختہ بول اٹھتا کہ یہ کوئی مقرب فرشتہ ہے جو اس ہئیت سے زمین پر چلتا ہے یہ بزرگوار علوم کا کافی حصہ رکھتے اور فضل و بزرگی میں ایک آیت تھے۔ کاتب حروف نے دیوانِ احسن حسن بزرگ کے سامنے رکھا ہے ار اس کے دقائق و حقائق دریافت کیے ہیں۔ آپ کا دستور تھا کہ اپنے گھر کی ضروری اور مایحتاج چیزیں مثلاً غلہ لکڑی وغیرہ خود اٹھا کر گھر میں لاتے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ کھچڑی اور لکڑیاں ہاتھ میں لیے ہوئے رستہ میں چلے آ رہے تھے کہ سامنے سے قاضی کمال الدین صدر جہان مرحوم نے آپ کو دیکھا باوجود اس کروفر اور حشمت و شوکت کے صدر جہان تشریف لیے جاتے تھے آپ کو دیکھتے ہی گھوڑے سے اتر پڑے شرف قدم بوسی حاصل کی اور حاضرین کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا یہ مرد خدا جو کسی شخص کی طرف زرا التفات نہیں کرتا سلف کے طریقہ پر چلتا ہے کسی بزرگ نے کیا خوب فرمایا ہے۔
خوشم بدولت خواری و ملک تنھائی
کہ التفات کسے رابروز گارم نیست
(میں اس دولت خواری اور تنہائی سے نہایت خوش ہوں کہ کسی کو میرے حال سے تعرض نہیں۔)
ان بزرگوار کا لباس صرف ایک چادر ہوتی تھی جس کا آدھا حصہ آپ اوپر کے جسم پر اوڑھے رہتے اور نصف آدھے حصے کاتہ بند کیے رہتے تھے۔ آپ کو سلطان المشائخ کی خدمت میں بہت کچھ عز و وقعت حاصل تھی۔ مولانا حسام الدین اور یاران اعلی جب مجلس اقدس میں حاضر ہوتے تو اکثر اوقات آپ ہی گفتگو کی سلسلہ جنباتی شروع کرتے جیسا کہ سلطان المشائخ کے ذکر میں اس بات کا مفصل ذکر ہوا ہے آخر کار دیوگیر میں تشریف لے گئے اور وہیں دار فنا سے عالم بقا کی طرف تشریف لے گئے وہیں آپ کا مدفن ہے۔
(سِیَر الاولیاء)