رئیس اقبال شاہ
شامی، استاذ العلما، علامہ حافظ پروفیسر ڈاکٹر سیّد محمد
نام: رئیس اقبال
نسب: سیّد
نسب نامہ: سیّد محمد رئیس اقبال شامی بن محمد بدر الحسن بن سیّد عبدالحکیم
تاریخِ ولادت: 23؍ ربیع الاوّل 1411ھ مطابق14؍ اکتوبر 1990ء
مقامِ
ولادت: کراچی۔
خاندانی پس منظر:
پروفیسر
ڈاکٹر علامہ سیّد محمد رئیس اقبال شامی کے والدِ
محترم کا تعلق ہندوستان کے صوبۂ اُتر پردیش (یوپی) سے تھا، جب کہ
والدۂ ماجدہ کا تعلق ہندوستان کے ضلع مظفرپور کے مؤقر صوفی و خانقاہی خاندان سے
ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے نانا جان سیّد جبار الحسن شاہ قادری تیغی کا مزارِ پُرانوار سخی حسن قبرستان میں
مرجع الخلائق ہے۔ آپ کے ننھیال والے اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے خانقاہی
نظام کی پیروی کررہے ہیں اور لوگوں کو جامِ عرفان سے سیراب کررہے ہیں۔
حصولِ تعلیم:
آپ نے 16؍ جنوری 2001 کو اپنے
محلے کے مدرسے سے حفظِ قرآنِ کریم کی تکمیل کی۔ تکمیلِ حفظِ قرآن کے بعد آپ نے مدرسۂ وقار العلوم میں درسِ نظامی کا آغاز کیا
اور دو سال تک وہاں زیرِ تعلیم رہے۔ آپ کی قوتِ حافظہ، شوق اور لگن کو دیکھ کر
2004ء میں ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا انٹرنیشنل کے اُس وقت کے صدر حضرت صاحبزادہ سیّد وجاہت رسول
قادری نے جانشینِ مُفتیِ
اعظم پاکستان صاحبزادہ محمد عبد المصطفیٰ ہزاروی دامت
برکاتہم العالیۃ اور شیخ الحدیث حضرت علامہ حافظ محمد
عبدالستار سعیدی دامت برکاتہم العالیۃ کے نام ایک خط لکھ کر جامعہ نظامیہ رضویہ میں داخلے کی سفارش کی۔ یوں
موصوف شیخوپورہ چلے آئے اور 2013ء میں درسِ نظامی کی تکمیل ہوئی۔
تکمیلِ درسِ نظامی کے بعد کراچی
واپسی پر کچھ عرصہ دارالعلوم نعیمیہ میں تخصص فی الفقہ میں مصروف رہے۔ بعد ازاں مزید
علمی تشنگی نے آپ کو بیروت کی طرف عازمِ سفر کردیا۔ آپ لبنان کے دارالحکومت بیروت
چلے گئے اور پانچ سال وہاں قیام کیا۔ اس دوران آپ نے علمائے عرب سے اکتسابِ فیض کیا
اور گلوبل یونیورسٹی کے شعبہ ’’العقیدۃ و الفلسفۃ‘‘ سے اصولِ دین میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کی تحقیق کا مدار
سراج الامّہ امامِ اعظم ابوحنیفہ حضرت نعمان بن ثابت کی وہ عبارات تھیں، جن کو
قاضی کمال الدین بیاضی نے اپنی کتاب الاصول المنیفۃ میں جمع کیا اور پھر خود ہی اس کی شرح کی، جس کا نام ’’اشارات
المرام من الامام ابی حنیفۃ النعمان‘‘ رکھا۔ آپ کے مقالے کے مشرف جامعۃ الازہر کے عظیم
شیخ ڈاکٹر احمد سیّد غنیم حفظہ اللہ، جب کہ نائب مشرف ڈاکٹر عبدالرحمٰن عماش تھے، جن کا شمار بیروت کے
کبار علمائے کرام میں ہوتا ہے۔
اساتذۂکرام:
آپ نے عرب و عجم کے کثیر علمائے کرام سے علم دین حاصل کیا ہے، جن میں
سے چند یہ ہیں:
شیخ الحدیث حضرت علامہ حافظ محمد عبدالستار سعیدی دامت برکاتہم العالیۃ
شیخ الحدیث حضرت علامہ شیخ
محمد عبدالتواب صدّیقی اچھروی
شیخ الحدیث حضرت علامہ حافظ خادم حسین رضوی
ڈاکٹر شیخ عبدالرحمٰن عماش
ڈاکٹر شیخ کمال یوسف الحوت
شیخ عیسیٰ قبلان
ڈاکٹر شیخ وسیم کعکاتی
شیخ شہاب الدین ابو عمر و احمد شامی دامت
برکاتہم العالیۃ
درس و تدریس:
درس و
تدریس کا آغاز 2014ء میں جامعہ وقار العلوم اورنگی ٹاؤن کراچی سے اپنے استادِ
محترم حضرت علامہ مولانا حافظ خادم حسین رضوی کے حکم پر کیا اور بطورِ ناظم تعلیم
اس جامعہ میں فرائض انجام دیے۔ بعد میں تدریس کے لیے افریقہ کے مشہور جزیرے ’’موریشس‘‘
تشریف لے گئے، جہاں ’’دارالعلوم علیمیہ‘‘ میں بحیثیت نائب مدیر کچھ عرصہ اپنی
خدمات پیش کیں۔ حال ہی میں آپ نورِ حمزہ اسلامک کالج کے ’’شعبۂ عربی لغت و ادب‘‘ میں
بحیثیتِ مدیر فرائض انجام دیتے رہے۔ ساتھ ہی جامعہ کراچی کے شعبۂ شماریات میں بحیثیت
وزیٹنگ اسسٹنٹ پروفیسر کے خدمات سر انجام دیتے رہے۔ آپ نے جامع مسجد قبا، سیکٹر 5C-4،
نارتھ کراچی میں ڈاکٹر شیخ سیّد مظہر اقبال شامی صاحب کی معیت میں
ادارۂ’’معھد الاسلام الماتریدیۃ لنشر اللہ العربیۃ‘‘ کی بنیاد رکھی جہاں زبانِ مصطفیٰ صلی اللہ
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو عام کررہے تھے اور ساتھ ہی
کالجز یونیورسٹیز کے طلبہ کے لیے مختلف دینی کورسز منعقد کرکے علم کی شمع جلا رہے
تھے۔
اجازت و خلافت:
آپ مذہباً حنفی، عقیدۃًماتریدی
اور مشرباً قادری ہیں۔ آپ کو نبیرۂ اعلیٰ حضرت حضرت علامہ مولانا توصیف رضا خاں
قادری رضوی برکاتی صاحب کی طرف سے اور درسگاہِ صدر الافاضل سیّد محمد نعیم الدین
مرادآبادی سے اجازت و خلافت دی گئی؛ نیز، بعض مشائخ کی طرف سے سلسۂ رفاعیہ میں
خلافت عطا کی گئی اور کثیر علمائے عرب و عجم کی طرف بھی سے علومِ عقلیہ و نقلیہ کی
اَسناد و اجازت سے نوازے گئے۔
تبلیغی اَسفار:
آپ نے حصولِ علمِ دین اور تبلیغِ دین کے لیے کئی ممالک کا سفر
کیا، جن میں شام، امارات، افریقہ کے جزیرۂموریشس اور ترکی؛ نیز، لبنان کے اَسفار
خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔
تحقیقی و تصنیفی خدمات:
1.
اشاعت
المرام من عبارات الامام (تحقیق)
2.
ھدایۃ
الجنان فی تنزیہ اللہ عن الجسمیۃ والجھت والمکان۔
3.
عقیدۃ
المسلمین۔
4.
نیل
السعادتین فی شرح مقتضی الشھادتین
5.
شرح اوجز
المختصرات فی علم الحال
6.
الفتح
المبین فی بیان الصراط المستقیم
7.
العقیدۃ
مرشدہ (عقیدۂ راہِ ہدایت)
8.
الثقافتہ
الاسلامیہ (الجزء الاوّل)
9.
الثقافتہ
الاسلامیہ (الجزء الثانی)
10.
الثقافتہ
الاسلامیہ (الجزء الثالث)
11.
الثقافتہ
الاسلامیہ (الجزء الرابع)
12.
الثقافتہ
الاسلامیہ (الجزء الخامس)
