سردار احمد عالم قادری،
خوشبوئے رومی علامہ پیر سائیں
نام: سردار احمد عالم
لقب: پیرِ طریقت، رہبر ِشریعت،
فخر الفضلاء
سالِ ولادت: ۱۹۵۰ء
مقامِ ولادت: کھریپڑ شریف۔
خاندانی پس منظر:
فخر الفضلاء، فاضلِ بندیال،
پیرِ طریقت رہبر ِشریعت حضرت علامہ پیر سردار احمد عالمسجادہ
نشین کھرپیڑ شریف فطرتاً اور جبلتاً زیورِ
شرافت سے آراستہ تھے۔ آپ کے آستانۂ عالیہ میں شب وروز عقیدت مندوں کا ہجوم رہتا ،
ملک کے اطراف واکناف سے لوگ فیض حاصل کر رہے ہیں۔ کھریپڑشریف کا چشمۂ شریعت وطریقت تشنگانِ علم ِشریعت اور
طریقت کو مدتِ مدید سے سیراب کررہا ہے ۔ فاضل موصوف نے علمی خاندان میں آنکھ
کھولی۔ آپ کے والدِ گرامی فخرا لمشائخ زینتِ اہلِ سنّت
حضرت پیر محمد اشرف قادری نے جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور میں رئیس المناطقہ عین
الاذکیا سند المحققین فخر المدققین الاستاذ المطلق حضرت علامہ عطا محمد چشتی
گولڑوی بندیالوی کی خدمتِ عالیہ میں زانوئے تلمذتہہ کیے، ایک متبحر و جیّد عالمِ
دین ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ زہد وتقویٰ بھی تھے، طریقت اور شریعت کی خدمات میں
اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔آپ کے دادا جان خواجہ محمد عظیم قادری بھی بہت بڑے فاضل
تھے۔ آپ کے جد امجد کی بیعت فخر المشائخ پیر طریقت حضرت سیّد شیر محمد گیلانی فتح
پوری سے تھی اور آپ کے جد امجد نے علومِ اسلامیہ محقق اہل سنّت جامع معقول و منقول
حضرت علامہ احمد علی سہارنپوری سے پڑھے تھے۔
فضیلت اور شرافت کا منفرد پہلو:
فاضلِ ذی شان حضرت
علامہ پیر محمد سردار احمدکی فضیلت اور شرافت کے منفرد پہلو کی متعدد انواع ہیں۔
النوع
الاوّل:
آپ کے والدِ
گرامی بھی شریعت اور طریقت کے متبحر عالم اور آپ کے جد امجد بھی شریعت اور حقیقت
کے سپہ سالار تھے۔
النوع
الثانی:
فاضل موصوف جامع المعقول والمنقول حضرت علامہ پیر سردار احمد قادرینے بھی اپنے والدِ گرامی کی طرح رئیس المناطقہ سے
شرفِ تلمذ حاصل کیا۔ چنانچہ آپ نے بڑی عرق ریزی اور محنتِ شاقہ سے جامعہ مظہریہ
امدادیہ بندیال شریف میں رئیس المناطقہ الاستاذ المطلق حضرت علامہ عطا محمد
بندیالوی گولڑوی اور محقق العرب والعجم حضرت قبلہ علامہ محمد عبدالحق صاحب کی
خدمت میں حاضر ہوکر علومِ عقلیہ ونقلیہ کی تحصیل فرمائی۔
النوع
الثالث:
خادم اپنے مخدوموں کی خدمت کیا ہی کرتے
ہیں کوئی امر متعجب نہیں ہے مگر فاضل موصوف نے اپنے مربی اور مشفق استاذ کی جس قدر
خدمت کی اس کی نظیر کا پایا جانا امرِ دشوار
ہے۔ المختصر فاضل موصوف خدمت اور تعظیم وتوقیر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔
عصری
تعلیم کا تعارفی پہلو:
فاضل موصوف نے مڈل کی تعلیم اپنے دیہات
میں ہی حاصل کی۔ مڈل کے بعد دینی تعلیم کی محبت نے ان کا رخ علومِ اسلامیہ کی
تحصیل کی طرف کردیا جب کہ والدِ گرامی کی تعلیم وتربیت کا بھی اثرتھا؛ بالآخر درسِ
نظامی کی تعلیم کے لیے رختِ سفر باندھ لیا اور اہلِ سنّت
کی مرکزی دینی درس گاہ جامعہ قادریہ فیصل آباد پہنچ کر جامعہ میں داخلہ لیا۔
المختصر فاضل موصوف متعدد مدارس میں حصول علم کے لیے تشریف لے گئے ذیل میں ان مدارس
کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
جامعہ
قادریہ:
جناب قبلہ پیر سردار احمد صاحب نے درسِ
نظامی کی ابتدائی کتب پڑھنے کے لیے جامعہ قادریہ میں داخلہ لیا اور جامعہ کے قابل ترین استاذ حضرت علامہ
عطا محمد قادری حاصل پوری سے بڑی محنت اور عرق ریزی سے کتب صرف پڑھیں، شب وروز
انتھک محنت کی اور اپنے ہم سبق ساتھیوں میں ممتاز ہوگئے۔
جامعہ
ہری پور:
جامعہ قادریہ میں کتبِ صرف بڑی محنت سے
پڑھنے کے بعد علومِ اسلامیہ کی تحصیل کا جذبہ بڑھتا گیا بالآخر انظارو افکار پختہ ہوگئے
اور علومِ اسلامیہ کی مزید تحصیل کے لیے ہری پور ہزارہ تشریف لے گئے اور جامعہ ہری
پوری میں داخلہ لیا۔ جامعہ کے صدر مدرس شرف الملت والدین حضرت علامہ محمد
عبدالحکیم شرف قادری اور فخر المدرسین حضرت علامہ عطاء محمدقادری جیسے مقتدر اور
قابل رشک اساتذہ سے کتبِ منطق قطبی تک نحوِ میر سے کافیہ تک اور نورالایضاح ،
قدوری اور کنز وغیرہا پڑھنے کا شرف حاصل
کیا۔ اللہ تعالی نے قبلہ پیر صاحب کے مقدر میں عالمِ اسلام کے قابلِ رشک اور فاضل
اساتذہ کا انتخاب فرمایا ۔
جامعہ
مظہریہ امدادیہ:
علمِ طریقت اور علمِ شریعت کے شاہین مختلف
جامعات اور مقتدر اساتذہ سے علومِ اسلامیہ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اب کسی ایسے
جامعہ کے متلاشی تھے جس کی پُر اَنوار فضا سے آسمانِ علم وحکمت کے درخشندہ ستارے
آسمان کے افق پر طلوع ہوکر عالم اسلام کے اجنان واذہان کو منوّر کررہے ہوں۔ میری
مراد عالمِ اسلام کی مرکزی درس گاہ مادرِ علمی جامعہ مظہریہ امدایہ ہے ۔
المختصر، حضرت قبلہ پیر صاحبنے اعلیٰ
تعلیم کے لیے عالمِ اسلام کی مرکزی مذہبی درسگاہ جامعہ مظہریہ امدادیہ آستانۂ
عالیہ بندیال شریف حاضر ہو کر جامعہ بندیال میں داخلہ۔
جامعہ مظہریہ امدادیہ کے شیخ الاسلام
والفنون وشیخ الجامعہ حضرت علامہ عطامحمد بندیالوی گولڑوی کے طرزِ تعلیم کو دیکھ
کر دل میں اُن کی اس قدر محبت پیدا ہوئی کہ بس انہی کے ہوکر رہ گئے۔
حور پہ نظر نہیں رکھتا شیدا تیرا
خدمت
میں عظمت:
اکثر دیکھنے میں آیا کہ قبلہ پیر صاحب
جب گھر سے تشریف لاتے تو اشیائے خورد نیہ
اور اشیائے ضروریہ اپنے مشفق اور مربی استاذ کے قدموں میں ڈھیر کردیتے۔ وَاللہُ یُؤْتِیْہِ
مَنْ یَّشَآءُ۔
مہندی سو دکھ سیندی تاں تلیاں تے بیندی
تن من سب چرا کے کنگھی تاں زلفاں وچہ دیندی
جامعہ بندیال میں مدت قیام:
فخر الفضلاء حضرت قبلہ پیر صاحب جامعہ
مظہریہ امدادیہ میں دس سال قیام پذیر رہے۔ اس مدتِ مدید میں آپ نے استاذ الاساتذہ
الاستاذ المطلق حضرت علامہ عطا محمد بندیالوی گولڑوی نوراللہ مرقدہ الشریف سے
مندرجۂ ذیل کتبِ درسیہ پڑھنے کا شرف حاصل کیا:
کتبِ تفسیریہ: جلالین شریف، بیضاوی
کتبِ منطقیہ: صغریٰ و کبریٰ، قال اقوال، مرقات، شرحِ
تہذیب، قطبی، ملاحسن قاضی، حمد اللہ۔
کتبِ فلسفہ : میذی وغیرہ۔
کتب ِاُصولِ فقہ: نورالانوار حسامی،مسلم الثبوت، توضیح
تلویح۔
کتبِ فقہ، مناظرہ وغیرہا: ہدایہ اوّلین، ہدایہ آخرین،
مختصرالمعانی، مطول، مناظرہ رشیدیہ، اقلیدس تصریح، ، جامی تکملہ ، سراجی وغیرہ۔
خلافت
وبیعت:
اپنے والدِ گرامی فخرا لمشائخ پیرِ
طریقت حضرت علامہ مولانا محمد اشرف قادری کے دستِ حق پرست پر بیعت فرمائی اور اُن
سے خلافت و اجازت بھی پائی۔
شریعت
اور طریقت کی پاسبانی:
حضرت قبلہ پیر سردا ر احمد جامعہ کے
ناظمِ اعلیٰ ہونے کے ساتھ ساتھ آستانۂ کھر یپڑ شریف کے سجادہ نشین بھی ہیں۔ عوام
وخواص کو علمِ شریعت اور طریقت کا فیض بانٹ رہے ہیں۔ شب وروز آستانے پر متلاشیانِ
علمِ شریعت و طریقت کا ہجوم رہتا ہے۔
آستانۂ
عالیہ کھریپڑ شریف اور مثنوی شریف:
آستانۂ عالیہ کھر یپڑ شریف میں بڑی محبت
سے عارف باللہ حضرت مولانا رومی کی مثنوی شریف کثرت سے پڑھی جاتی ہے اور ساتھ ہی
اس کے اشعار کی وضاحت بھی کی جاتی ہے۔ عارفِ رومی کا کلام سننے کے لیے ملک کے
اطراف واکناف کے سالک حاضر ہو کر، اپنے اجنان واذہان کو منوّر کرتے رہتے ہیں۔ اللہ
قدوس اس آستانےکے فیض کو عالم اسلام میں عام کرے اور تا قیامت یہ روحانی اور علمی
آستانہ عالیہ آباد رہے ۔ فالحمد للہ علی ذلک حمدا کثیرا۔
وصال: حضرت قبلہ پیر سردا ر احمد نے ۵؍ رمضان
المبارک ۱۴۴۵ھ مطابق ۱۵؍ مارچ ۲۰۲۴ء بروز جمعۃ المبارک وصال فرمایا۔
