حضرت شیخ شاہ کاکو چشتی صابری
نام ونسب: اسم گرامی: حضرت شاہ کاکو۔ سلسلہ نسب: آپ کا سلسلۂ نسب حضرت بابافرید الدین مسعودگنجِ شکرسےجاملتاہے۔
تحصیل ِعلم: آپ علومِ عقلیہ ونقلیہ میں ماہر تھے۔
بیعت وخلافت: آپ حضرت شیخ علاء الدین بنگالی کے صاحبزادےشیخ نور قطب عالم کے دست حق پرست پرسلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں بیعت ہوئے،اور سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں شیخ پیر محمد چشتی صابری سے خرقہ خلافت حاصل کیا۔
سیرت وخصائص: عارف کامل، شیخ واصل،حضرت شیخ شاہ کو چشتی صابری ، آپ اولیائے کبار سے ہیں۔ آپ کا خاندانی تعلق حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر سے۔ آپ نہایت ہی جامع الکمالات اور عبادت و ریاضت ، زہد و تقویٰ ورع میں کامل اور متوکل اور مرجع خلائق بزرگ تھے۔ آپ نے تمام عمر درس و تدریس اور رشد و ہدایت میں گزاری۔ لودھی کے دور حکومت میں لاہور کے اندر آپ کا مدرسہ و خانقاہ شاہ کا کو چشتی صابری ایک اعلیٰ مقام رکھتی تھی۔ حضرت میاں یر قادری لاہوری علیہ الرحمۃ آپ کے مزار اقدس پر اکثر حاضری دیا کرتے اور فرماتے تھے کہ یہ مزار ایک ولی کامل کا ہے۔آپ نے سلسلہ عالیہ کی خوب اشاعت و ترویج کی، اور آپ کی ذات والا صفات سے اس قدر فیض جاری ہوا کہ ہزاروں افراد آپ کے فیض سے مالا مال ہوئے۔ لا تعداد افراد آپ کے دست مبارک پر بیعت سے مشرف ہوئے۔ آپ کے شیخ کامل حضرت شیخ پیر محمد چشتی صابری نے آپ کو رخصت کرتے وقت لاہور کی ولایت عطا فرمائی تھی، اور یہی وجہ تھی کہ ہر وقت آپ کی خانقاہ میں عوام الناس کا ہجوم رہتا اور دن ورات لنگر ہر خاص کے لیے جاری رہتا تھا۔
خزینۃ الاصفیاء میں ہے: حضرت شاہ کاکو کا مزار مبارک مسجد شہید گنج نو لکھا بازار میں واقعہ ہے یہاں محلہ شاہ کاکو بھی آباد تھا۔ جسے دارا شکوہ نے اپنے محلات میں ضم کرلیا تھا۔ پھر سلطنت مغلیہ کو نادر شاہ اور احمد شاہ ایرانی کے ہاتھوں جو نقصان پہنچا۔ اس میں محلہ دارا شکوہ محلات دارا شکوہ کے ساتھ ساتھ حضرت شاہ کاکو رحمۃ اللہ علیہ کا مزار بھی پیوست زمیں ہوگیا۔ سکھوں کا دور آیا تو انہوں نے اس مقام کو خصوصی طور پر اپنی بربریت کا نشانہ بنایا تھا۔ یہ بربریت ایک انتقامی کاروائی تھی۔ مغلوں کے سپہ سالار نواب عبدالصمد خان اور نواب معین الملک کے دور اقتدار میں سکھ لٹیروں اور باغیوں کو اسی مقام پر پھانسی دی جایا کرتی تھی۔ ان حالات میں مزار شاہ کاکو کے آثار مٹ گئے مگر میاں میر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے زمانہ میں ازروئے کشف اس مزار کو دریافت کرکے اپنے مریدوں کو توجہ دلائی۔ وہ ایک عرصہ تک اس مزار پر عرس ختم اور دیگر رسومات ادا کرنے میں مستعد رہے تھے سکھوں کے اقتدار کے بعد میاں سلطان ٹھیکیدار نے یہاں کے محلات کے کھنڈرات کی اینٹیں بیچنا شروع کیں تو مسجد شہید گنج مزار حضرت کاکو محلہ دارا شکوہ اور دوسرے مقامات کے نشانات مٹ گئے۔ پھر مسجد شہید گنج کی بازیابی کے لیے تحریک چلی تو 1935ء میں سر ایمرسن گورنر پنجاب اور سکندر حیات کی وزارت کے دوران اس سارے علاقہ کو سکھوں کے حوالے کردیا گیا۔ اگرچہ آج پاکستان کو بنے بیالیس سال ہوچکے ہیں اور سکھوں کو یہاں سے گئے بھی عرصہ ہوگیا ہے۔ مگر ابھی تک نہ مسجد شہید گنج تعمیر ہوئی۔ نہ کاکو شاہ کا مزار بنا آپ کے مزار پر ساڑھے تین سو سال تک عرس منایا جاتا رہا ہے۔ جہاں ربیع الاوّل کی بارہویں تاریخ کو نعت خوانی۔ قوالی۔ اور علمائے کرام کی تقاریر ہوا کرتی تھیں۔ حضرت کاکو شاہ صرف فقیر ہی نہ تھے۔ دنیاوی طور پر بڑے صاحب ثروت تھے۔ مرید کے ضلع شیخو پورہ میں آج تک کالا شاہ کاکو آپ کی جاٖگیر یاد کو تازہ کرتا ہے
تاریخِ وصال: آپ کا وصال 882ھ بمطابق 1477ء کو ہوا۔ مزار پُر انوار محلہ شاہ کا کو شہید گنج لنڈا بازار لاہور میں مرجع خاص و عام ہے۔ آپ کے مزار کے ساتھ ایک مسجد بھی موجود ہے۔ آپ کے بعد آپ کے صاحبزادے حضرت شیخ اسحاق شاہ کا کوچشتی صابری علیہ الرحمۃ سجادہ و خلیفہ ہوئے۔ جن سے وسیع پیمانے پر سلسلہ عالیہ کو فروغ حاصل ہوا۔