حمزہ، سیّدالشہداء سیّدنا امیر
اسمِ گرامی: امیرحمزہ۔
کنیت: ابوعمارہ۔
لقب: اسداللہ واسدرسول اللہﷺ۔
والدۂ ماجدہ: ہالہ بنتِ اہیب بن عبدِ مناف بن زہرہ۔
حضرت ہالہ نبی اکرم ﷺکی والدۂ ماجدہ حضرت آمنہ کی چچا زاد بہن تھیں۔ سیّدنا امیرحمزہ نبی اکرم ﷺکے
چچا اور رضاعی بھائی ہیں۔ ابو لہب کی آزاد کردہ کنیز ثویبہ نے ان دونوں ہستیوں
اور حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد مخزومی (حضرت اُمّ المؤمنین امِّ سلمہکے پہلے شوہر) کو دودھ پلایا تھا۔
نسب:
سیّدالشہداء حضرت سیّدنا امیرحمزہ
کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے:
سیّدنا
حمزہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدِ مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب اِلٰی اٰخِرِہٖ)۔
ولادت:
حضرت حمزہ کی
عمر نبی اکرم ﷺسے دو سال اور ایک قول کےمطابق
چار سال زیادہ تھی۔
قبولِ اسلام:
بعثت کے دوسرے سال اور ایک(ضعیف) قول کے مطابق چھٹے سال
مشرف بَہ اسلام ہوئے۔
اسلام لانے کے دن انہوں نے سنا کہ ابو جہل،نبیِ مکرمﷺکی شان میں
نازیبا کلمات کہہ رہا ہے، تو آپ نے حرمِ مکہ میں اس کے سر پر اس زور سے
کمان ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا،اورحضرت حمزہ
نے نبیِ مکرمﷺ سےگزارش کی:
’’بھتیجے!
اپنے دین کا کھل کر پرچار کیجیے۔ اللہ تعالیٰ کی قسم ! مجھے دنیا بھر کی دولت بھی
دے دی جائے تو میں اپنی قوم کے دین پر رہنا پسند نہیں کروں گا۔‘‘
ان کے اسلام لانے سے رسول اللہﷺ
کو تقویت حاصل ہوئی اور مشرکین آپ کی ایذا رسانی سے کسی حد تک رک گئے، بعد ازاں
ہجرت کرکے مدینۂ منوّرہ چلے گئے۔
سیرت وخصائص:
سیّد الشہداء حضرت سیّدنا امیرحمزہ
بہادر، سخی،نرم مزاج والے،خوش اخلاق، قریش کے دلاور جوان اور غیرت مندی میں
انتہائی بلند مقام کے مالک تھے۔
رسول اللہﷺنے جو پہلا جھنڈا تیار کیا وہ سیّد الشہداء ہی کے لیے
تھا، جب 2ھ/623ء میں حضور سیّدِ عالمﷺ نے
انہیں قومِ جُھَیْنَہ کے علاقے سیف
البحر کی طرف (ایک دستے کے ہمراہ ) بھیجا۔
ابنِ ہشام نے سیّدنا
حمزہ کا ایک شعر نقل کیا، جس کا اردو ترجمہ مندرجۂ
ذیل ہے:
ترجمہ: ’’رسول اللہﷺکے حکم پر میں
پہلا تلوار چلانے والا تھاجس کے سر پر جھنڈا تھا، یہ جھنڈا مجھ سے پہلے ظاہر نہ
ہوا تھا۔‘‘
حضرت سیّد الشہداء جنگِ اُحُد کے دن خاکستری اونٹ اور پھاڑنے والے شیر
دکھائی دیتے تھے۔ انہوں نے اپنی تلوار سے مشرکین کو بری طرح خوف زدہ کردیا، کوئی
ان کے سامنے ٹھہرتا ہی نہ تھا۔ غزوۂ احد میں آپ نے31 مشرکوں کو جہنم رسید کیا۔
پھر آپ کا پاؤں پھسلا تو آپ تیر اندازوں کی پہاڑی کے پاس واقع وادی میں پشت کے
بل گرگئے، زرہ آپ کے پیٹ سے کھل گئی، جبیر بن مطعم کے غلام وحشی بن حرب نے کچھ
فاصلے سے خنجر پھینکااور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں آپ کو مرتبۂ شہادت سے سرفراز فرمایا۔ یہ واقعہ ہفتے کے دن
نصف15؍ شوّال 3 یا 4ہجری (624ء یا 625ء) کو پیش آیا، اُس وقت آپ کی عمر 57 سال تھی۔
ایک قول کے مطابق آپ کی عمر شریف 59 سال تھی۔ پھر مشرکین نے آپ کے اَعضا کاٹے اور پیٹ چاک کیا ، ان کی ایک عورت نے آپ
کا جگر نکال کر مُنھ میں ڈالا اور اسے چبایا، لیکن اسے اپنے حلق سے نیچے نہ اتار
سکی، ناچا ر ا سے تھوک دیا۔
جب رسول اللہ ﷺ کو یہ
اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا:
’’اگر
یہ جگر اُس کے پیٹ میں چلا جاتا تو وہ عورت آگ میں داخل نہ ہوتی۔ کیوں کہ اللہ
تعالیٰ کی بارگاہ میں میرے حمزہ کی اتنی عزّت ہے کہ ان کے جسم کے کسی حصے کو آگ
میں داخل نہیں فرمائے گا۔‘‘
جب رسول اللہﷺ تشریف
لائے اور آپ کے مثلہ کیے ہوئے جسم کو دیکھا، تو یہ منظر آپ کے دلِ اقدس کے لیے
اس قدر تکلیف دہ تھا کہ اس سے زیادہ تکلیف دہ منظر آپ کی نظر سے کبھی نہیں
گزراتھا۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’اے
چچا! آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، کیوں کہ
آپ جب تک عمل کرتے رہے، بہت نیکی کرنے والے اور بہت صلہ رحمی کرنے والے تھے۔‘‘
پھر اُن کے جسدِ مبارک کو قبلہ کی جانب رکھا اور ان کے
جنازے کے سامنے کھڑے ہوئے اور اس شدت سے روئے کہ قریب تھا کہ آپ پر غشی طاری
ہوجاتی۔
نبی اکرم ﷺفرمارہے تھے:
’’اے
اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺکے چچا! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے شیر، اے حمزہ! نیک کام کرنے والے، اے حمزہ! مصیبتوں کے
دور کرنے والے، اے حمزہ! رسول اللہﷺ کا دفاع کرنے والے!
یہ بھی فرمایا:
’’ہمارے
پاس جبرائیل امین تشریف لائے اور ہمیں بتایا کہ
حضرت حمزہ کے بارے میں ساتوں آسمانوں میں لکھا ہوا ہے:’ حمزہ بن عبد المطلب، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکے شیر
ہیں ‘۔‘‘
حاکم نیشاپوری، مستدرک میں حضرت جابر سے مرفوعاً (یعنی رسول اللہﷺ
کا فرمان) روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضرت حمزہ بن
عبد المطلب شفاعت کرنے والوں کے سردار ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَفَمَنۡ وَّعَدْنٰہُ وَعْدًا
حَسَنًا فَہُوَ لٰقِیۡہِ۔ (پارہ 20، سورۃ القصص:
61)
ترجمہ: ’’تو کیا وہ جسے ہم
نے اچھا وعدہ دیا تو وہ اُس سے ملے گا۔‘‘ (کنزالایمان)
سدی کہتے ہیں کہ ’’یہ آیت حضرت حمزہ کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یٰۤاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ﴿۲۷﴾٭ۖ ارْجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً
مَّرْضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾(پارہ 30، سورۃ الفجر: 27
تا 28)
ترجمہ: ’’اے اطمینان والی جان! اپنے رب کی طرف واپس ہو یوں کہ تو اُس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔‘‘
سلفی کہتے ہیں کہ اِس سے مراد حضرت حمزہ ہیں۔
نبی اکرمﷺ نے انہیں ایسی چادر کا کفن پہنایا کہ جب اُسے آپ
کے سر پر پھیلاتے تو پاؤں ننگے ہوجاتے اور پاؤں پر پھیلاتے تو سر ننگا ہوجاتا،
چنانچہ وہ چادر آپ کے سر پر پھیلادی گئی اور پاؤں پر اذخر (خوشبودار گھاس) ڈال
دی گئی۔ انہیں ایک ٹیلے پر دفن کیا، جہاں اس وقت ان کی قبر انور مشہور ہے ۔ اور اس
پر عظیم گنبد خلیفہ الناصر لدین اللہ احمد العباسی کی والدہ نے 590 ھ میں
تعمیر کروایا۔
لیکن افسوس نجدی حکومت نےخود ساختہ شریعت کا سہارا لیتے
ہوئے1925ء میں تمام مزارات کو شہید کردیا،اور اپنے لیے اونچے اونچے محلات تعمیر
کرلیے،ہم تمام نجدیوں سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ یہ بڑے بڑے محلات،اورعیاشیاں کس
کی سنّت ہیں؟
شہداء زندہ ہیں:
چالیس سال کے بعد شہدائے اُحُد کی قبریں کھولی گئیں تو ان کے جسم تروتازہ
تھے،ان کے ہاتھ پاؤں مڑ جاتے تھے اور ان کی قبروں سے کستوری کی خوشبو آتی تھی۔
حضرت حمزہکے پاؤں پر کدال لگ گیا تو اس سے
خون بہنے لگا۔ حضرت جابرکے والدِ ماجد(حضرت
عبد اللہ انصاری ) کا ہاتھ چہرے کے زخم سے ہٹایا گیا تو وہاں سے خون بہنے لگا،ہاتھ دوبارہ اسی
جگہ رکھ دیا گیا تو خون بند ہو گیا۔
نبی مکرمﷺ اور اہلِ مدینہ کا معمول:
نبی اکرم ﷺ نے شہدائے اُحُد کے بارے میں بیان فرمایا کہ جو شخص قیامت تک ان کی زیارت کرے گا اور ان کی خدمت میں
سلام عرض کرے گا تو وہ اسے جواب دیں گے۔
فاطمہ خزاعیہ کا
بیان ہے کہ میں ایک دن حضرت سیّد الشہداء جناب حمزہ کے
مزارِ اقدس کی زیارت کے لیے گئی اورمیں نے قبر منوّر کے سامنے کھڑے ہو کر’’اَلسَّلَامُ
عَلَیْکَ یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللہ!‘‘ کہا تو آ پ نے بآواز ِ بلند قبر کے اندر سے میرے سلام کا
جواب دیا جس کو میں نے اپنے کانوں سے سنا۔(حجۃ اللہ
علی العالمین، ج2، ص863)
نیک لوگوں کی ایک جماعت نے سنا کہ جس شخص نے شہدائے اُحُد کی
بارگاہ میں سلام عرض کیا تو انہوں نے جواب دیا۔
نبی اکرم ﷺ ہر سال کے
آخر میں شہدائے اُحُد کے مزارات پر تشریف لے
جاتے اور فرماتے:
’’سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فِنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ!‘‘
اہلِ مدینہ رجب کے مہینے میں حضرت حمزہکی زیارت کرتے ہیں۔(بحوالہ:سبل الھدی
والرشاد، ۴؍۳۷۰؛ البدایۃ
والنھایۃ، ۴؍۴۶۔ دلائل
النبوۃ، ۳؍۳۰۷۔؛ شرح الصدور، ص
۲۷۴؛ تفسیر الخازن، ۱؍۲۹۷)
تاریخِ شہادت:
بروز، ہفتہ15؍ شوّال
المکرم3ھ، مطابق 624ء کوآپ کی شہادت ہوئی۔اُس وقت آپ کی عمر 57 سال تھی۔ ایک قول
کے مطابق آپ کی عمر شریف 59 سال تھی۔
مآخذ و مَراجع:
جالیۃ الکدر فی نظم
اسماء شھداءاحد و بدر (علامہ برزنجی)۔
تذکرہ شہداء احد
وبدر۔(مجتبیٰ السعیدی)