شہید غزوہ احد حضرت سیدنا عمرو بن ثابت بن وقش الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
بن وقش بن زعبہ بن زعوراء بن عبدالاشہل انصاری اوسی اشہلی ۔سلمہ بن ثابت کے بھائی اورعباد بن بشرکے چچاکے بیٹے تھے۔عمروکالقب اسیرم بنی عبدالاشہل زیادہ مشہورہے۔یہ حذیفہ بن یمان کی بہن کے بیٹے تھے۔احد کے دن شہید ہوئے انھیں کی بابت کہاگیاہے کہ یہ ایسے جنتی ہیں جنھوں نے ایک وقت کی بھی نماز نہیں پڑھی یہ طبری کاقول ہے ہمیں ابوجعفر یعنی احمد نے اپنی سند کے ساتھ یونس بن بکیرسے انھوں نے محمد بن اسحاق سے روایت کرکےخبردی وہ کہتےتھے مجھ سے حصین بن عبدالرحمن بن عمروبن سعدبن معاذ نے ابوشقیق مولای ابن ابی احمد سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کرکے خبردی کہ وہ اکثرلوگوں سے پوچھاکرتےتھے کہ بتاؤ وہ کوجنتی ہے جس نے اللہ کے لیے ایک وقت کی بھی نماز نہ پڑھی ہوجب لوگ نہ بتاسکتےتوخودہی جواب دیتے کہ وہ اصیرم بنی عبدالاشہل یعنی عمروبن ثاب بن وقش تھےان کا واقعہ یوں ہے کہ یہ اسلام کی طرف راغب نہ ہوئے تھے مگرجب غزوہ احد پیش آیاتوخودبخود ان کو اسلام کی طرف رغبت پیداہوئی اور اسلام لائے بعداس کے انھوں نے اپنی تلواراٹھائی اورجہاد شروع کردیازخمی ہوکرآگئے جب بنی عبدالاشہل نے اپنی قوم کے لوگوں کو معرکہ میں تلاش کرناشروع کیاتوان کو دیکھا کہ مقتولوں کے ساتھ پڑے ہوئے ہیں اورکچھ جان باقی ہے لوگوں نے ان کودیکھتے ہی کہاکہ دیکھو یہ عمروپڑے ہوئے ہیں یہ یہاں کیوں آئے (یہ تو کافر تھے)پس لوگوں نے ان سے پوچھاکہ اے عمروتم کیوں یہاں آئے کیاتم اپنی قوم کی حفاظت کے لیے آئے تھے یااسلام کی طرف راغب ہوکرآئے تھے انھوں نے کہامیں اسلام کی طرف راغب ہوکرآیاہوں میں مسلمان ہو کر قتال کرنے لگایہاں تک کہ یہ حالت ہوگئی جو تم دیکھ رہے ہو۔اس کے بعد ہی ان کی وفات ہوگئی لوگوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکرکیاتوآپ نے فرمایا کہ وہ یقیناً اہل جنت میں سے ہے۔ابوعمرنے کہاہے کہ میرے نزدیک اس قول میں اعتراض ہے ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہےمیں کہتاہوں کہ ابن مندہ نے ان کا نسب اس طرح بیان کیاہے عمرو بن ثابت بن مرقش بن اصرم بن عبدالاشہل مگریہ نسب صحیح نہیں کیوں کہ اصرم عمروکالقب ہے ان کے داداکانام نہیں ہے علاوہ اس کے عمروکے داداکا نام اس نسب میں نہیں ہے کیوں کہ اصیرم اورعبدالاشہل کے درمیان سے زغبہ یا زعورا رہ گیاہے صحیح وہی ہے جو ہم نے بیان کیاابن مندہ نے ایک تذکرہ اورلکھاہےاس میں عمروبن اقینش کانام قائم کیاہے اور لکھاہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضورمیں آئےتھےاورآپ سے مسئلہ پوچھاتھا ابن مندہ نے اس تذکرہ کومختصر کردیاہےمگرہم نے وہ حدیث بھی لکھی ہے جوابوداؤد سجستانی نے روایت کی ہے اور وہ حدیث یہی تھی جواوپرگذرچکی یہ دونوں قصہ ایک ہی ہیں۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)