شیخ عبدالنبی بن شیخ عبدالقدوس گنگوہی
شیخ عبدالقدوس کے صاحبزادہ شیخ عبدالنبی تھے جو اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جوانی میں زیارت حرمین سے مشرف ہوئے، مکہ مکرمہ پہنچ کر بعض فقہائے کرام سے حدیث حاصل کرکے اپنے وطن واپس آئے اور پھر زہدوعشق میں مشہورہوئے اپنے والد اور چچا صاحبان سے ۔۔۔۔
شیخ عبدالنبی بن شیخ عبدالقدوس گنگوہی
شیخ عبدالقدوس کے صاحبزادہ شیخ عبدالنبی تھے جو اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جوانی میں زیارت حرمین سے مشرف ہوئے، مکہ مکرمہ پہنچ کر بعض فقہائے کرام سے حدیث حاصل کرکے اپنے وطن واپس آئے اور پھر زہدوعشق میں مشہورہوئے اپنے والد اور چچا صاحبان سے مسئلہ توحید و سماع میں گفتگو کی، آپ کے والد صاحب نے قوالی جواز میں ایک کتاب لکھی، آپ نے عدم اباحت قوالی میں ایک رسالہ سپرد قلم فرمایا، اس سے اگرچہ آپ کو کافی تکلیف اُٹھانی پڑی لیکن یہی رسالہ آپ کی شہرت کا سبب بنا، بادشاہ وقت اس زمانے میں ایک ایسے وزیراعظم کا طلب گار تھا جو عالم اور دیانت دار ہوچنانچہ بعض اسباب و ذرائع سے آپ 971ھ میں کرسی وزارت پر جلوہ افروز ہوئے ایام وزارت میں آپ کی مہر میں یہ الفاظ منقوش تھے لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔ آپ نے دورانِ وزارت میں اپنی محنت کی بدولت زیادہ منصب و عزت حاصل کی، آپ نے وزیراعظم ہوتے ہی ظلم و تشدد کو ختم کیا، اور اچھی طرح سے مال و جاہ حاصل کیا، بادشاہ وقت کو آپ سے بڑی عقیدت تھی جس کی وجہ سے دوسرے لوگ بادشاہ کی نگاہ میں حقیر نظر آنے لگے اور دوسرے شرفاء کے ساتھ آپ کے مقابلے میں ان کے منصب سے کم معاملہ ہونے لگا، غرضیکہ جوکوئی آپ کی طبیعت کے مطابق نہ ہوتا وہ بادشاہ کے یہاں حصول منصب سے محروم رہتا، کچھ عرصہ کے بعد 986ھ میں بعض اسباب کی بناپر مزاج شاہی میں کچھ فرق آگیا اور آپ عہدۂ وزارت سے معزول ہوگئے، آپ کو اور مولانا عبداللہ سلطان پوری کو جوکہ افغانوں کے دور سے اب تک معزز و مکرم تسلیم کیے گئے تھے جن کا لقب مخدوم الملک تھا اور جو صحیح الرائے، عقلمند اور تجربہ کار مشہور تھے مکہ مکرمہ کی طرف سفر کرنے کا حکم دے دیا گیا اس لیے کہ یہ دونوں باہم دیگر مخالف تھے لیکن اس کے باوجود ان دونوں حضرات کے درمیان راستہ بھر نیز مکہ مکرمہ میں بھی اتفاق کی کوئی صورت پیدا نہ ہوسکی، آخر کار پریشان ہوکر دونوں حضرات مکہ مکرمہ سے ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے۔ مخدوم الملک نے گجرات کے علاقہ میں پہنچ کر 991ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا اور شیخ عبدالنبی لوٹ کربادشاہ کے حضور میں حاضر ہوئے، عرصہ دراز تک جیل میں محبوس رہے اور وہیں جیل خانہ میں992ھ میں انتقال فرمایا۔
(اقتباس الانوار)