حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ قصور علیہ الرحمۃ
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہ بن الحاج گلاب دین ۲۲ ربیع الثانی ۱۳۳۸ھ/ ۱۴؍جنوری ۱۹۲۰ء میں موضع سرنگھ (ضلع امر تسر، بھارت) کے مقام پر پیدا ہوئے، موضع پٹی (ضلع امر تسر) کے ہائی سکول سے میٹرک کیا اور پھر علوم عربیہ اسلامیہ کی جانب متوجہ ہوئے۔
علومِ اسلامیہ کی تعلیم کے لیے آپ مرکزی دارالعلوم حزب الاحناف لاہور میں داخل ہوئے۔ ان دنوں دارالعلوم میں امام المنقول والمعقول حضرت علامہ الحاج مولانا مہرالدین نقشبندی مدظلہ مدرس تھے۔ علامہ مولانا محمد عبداللہ نے تمام کتب درس نظامی اول سے آخر تک آپ سے پڑھیں۔
کتبِ احادیث کا درس حضرت مفتیٔ اعظم پاکستان ابوالبرکات سیّد احمد سے لیا اور ۱۹۴۳ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔
آپ نے فراغت کے بعد اپنے گاؤں سر سنگھ (امر تسر) میں ’’دارالعلوم جامعہ حنفیہ‘‘ کے نام سے ایک دینی ادارہ قائم فرماکر علومِ اسلامیہ کے درس و تدریس کا آغاز فرمایا۔ تقسیم ہند کے بعد آپ قصور تشریف لائے اور یہاں ۱۹۴۹ء میں جامعہ حنفیہ کی نشاۃ ثانیہ فرمائی۔
جامعہ حنفیہ میں آپ طلباءِ حدیث کو درس دیتے ہیں۔ درسِ نظامی کی کتب متداولہ کی تدریس کے لیے دیگر اساتذہ کی تقرری کی گئی ہے۔
آپ نے زمانۂ طالب علمی ہی میں حضرت مفتیٔ اعظم پاکستان علامہ ابوالبرکات سید احمد قدس سرہ کے دست حق پرست پر شرف بیعت حاصل کیا، اور اجازت و خلافت سے بھی مشرف ہوئے۔ علاوہ ازیں آپ کوحضرت سید علاؤالدین طاہر بغدادی سے بھی اجازت و خلافت حاصل ہے۔ [۱]
[۱۔ غلام مہر علی، مولانا: الیواقیت المہریہ ص۱۴۹]
حضرت مولانا محمد عبداللہ قابل مدرس اور صاحبِ قلم شخصیت ہیں، چنانچہ آپ نے مختلف موضوعات پر متعدد کتابیں اور کتابچے تحریر کیے جن میں سے بعض ابھی تک مسودات کی صورت میں ہیں، چند رسائل مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ التعریفات للعلوم الدرسیات (مطبوعہ)
۲۔ نذرِ اولیاء
۳۔ نورٌ علی نور
۴۔ رفع السبابۃ بعمل الصحابہ رضی اللہ عنہم
۵۔ نکاحِ راعیل بابن راحیل (مطبوعہ)
حضرت مولانا محمد عبداللہ نے اسلام کی حمایت میں اٹھنے والی ہر تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ تحریک ختم نبوت ہو چاہے تحریک نظام مصطفےٰ آپ میدان میں آئے۔
حالیہ تحریک نظامِ مصطفےٰ میں آپ کو نظامِ مصطفےٰ کے حق میں تقریریں کرنے کے پاداش میں ڈی۔ پی۔ آر کے تحت گرفتار کیا گیا اور پھر تقریباً دو ماہ بعد رہائی ملی۔ یہ آپ ہی کی تربیت کا اثر ہے کہ آپ کی قیادت میں جامعہ حنفیہ کے مدرسین و طلباء نے بھی گرفتاریاں پیش کیں اور پوری قوم کے دوش بدوش نظامِ مصطفےٰ کے نفاذ کی خاطر قید و بند کی صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ فجزاہم اللہ خیراً۔