حضرت شیخ بختیار چشتی صابری
نام ونسب: اسم گرامی: شیخ بختیار چشتی صابری۔ نام ونسب کےبارےمیں کتب خاموش ہیں۔ آپ ایک تاجرکے غلام تھے، مگر پیشہ میں جوہری تھے۔ وہ تاجر جواہرات کی خریداری کے لئے اکثر و بیشتر آپ کو ہی دوسرے شہروں میں بھیجا کرتا تھا۔
تاریخ ولادت: تقریباً 810ھ یا اس سے قریب قریب۔
تحصیل علم: آپ ان پڑھ تھے مگر حضرت شیخ عبدالحق ردولوی کی صحبت فیض اثر سے ایسا وعظ فرماتے تھےکہ سننے والے حیران ہوجاتے تھے۔آپ کی ہربات قرآن و حدیث کے موافق ہوتی تھی۔
بیعت و خلافت: آپ حضرت شیخ احمد عبد الحق ردولوی چشتی صابری کے دست حق پرست پر بیعت سے مشرف ہوئے اور انہی سے خرقۂ خلافت پاکر صاحب ارشاد ہوئے۔ آپ کو اپنے شیخ سے بے حد محبت تھی۔یہ بات بہت مشہور ہے کہ حضرت شیخ احمد عبد الحق جس قدر توجہ آپ پر فرماتے تھے وہ کسی اور پر نہ تھی۔
سیرت وخصائص: قبلہ طالبان وصل و شہود فارغ از قید مشیخیت و نمود قطب دوراں حضرت شیخ بختیار چشتی ۔آپ ابتداء میں جواہرات کے ایک تاجر کے غلام تھے۔ مگر تھے بڑے جوہر شناس ایک مرتبہ شیخ بختیار اپنے مالک کے ساتھ ہیرے جواہرات کی سودا گری کے لئے ردولی شریف میں آئے تو شیخ بختیار نے جب حضرت شیخ احمد عبد الحق کو دیکھا تو زندگی بھر کے لئے کام ہوگیا اور کھڑے کھڑے دیکھتے رہ گئے۔شیخ نے ذرہ برابرالتفات نہ کیا۔یہ بھی نہ پوچھا کہ کیانام ہے اور کہاں سے آئے ہو۔یہاں تک کہ چھ ماہ گزر گئے۔ ایک دن اچانک حضرت شیخ احمد عبد الحق نے اپنی نگاہ ولایت سے دیکھا تو آپ بے ہوش ہوکر نیچے گر گئے،اور اس بے خودی کے عالم میں حضرت شیخ کی شان میں گستاخانہ کلمات کہنے لگے کہ اےشیخ احمد عبد الحق تم کو خدا نے اتنی نعمتوں سے نوازا ہے اور تم خدا کے بندوں کو اس سےمحروم رکھتے ہو۔حضرت شیخ احمد عبد الحق ردولوی نے ان کلمات سے روکا مگر آپ اپنی مستی و بےخودی میں بار بار یہی کلمات کہتے رہے۔ بالآخر حضرت شیخ احمد عبد الحق ردولوی علیہ الرحمۃ نے پانی پلایا تو ہوش میں آگئے۔ اس کے بعد حضرت شیخ احمد نے فرمایا کہ شیخ بختیار تم اپنے مالک کے پاس چلے جاؤاور وہ اگر تمہیں آزاد کردے تو پھر میرے پاس آجانا و رنہ وہیں پر رہواور اس کو راضی رکھو۔آپ نے حضرت شیخ کی بات پر عمل کیا اور ردولوی شریف سے جونپور تشریف لے گئے۔ اوراپنے مالک کے پاس پہنچے۔ جب آپ کے مالک نے آپ کی یہ کیفیت دیکھی تو آپ کو آزاد کردیا۔ آپ کے دل میں چونکہ عشق کی آگ بھڑکی ہوئی تھی۔ طبیعت کو اپنے شیخ کے بغیر قرار نہ تھا۔لہٰذا وہاں سے رخصت ہو کر واپس ردولی شریف واپس چلے آئے۔
شیخ شرف الدین بو علی قلندر کی سفارش:آپ کے بارے میں حضرت شیخ شرف الدین بو علی شاہ قلندر پانی پتی علیہ الرحمۃ نے حضرت شیخ احمد عبد الحق ردولوی چشتی صابری سے سفارش کی تھی اور کہا تھا کہ آپ کو جس طرح اس دنیا میں بختیار پہچانتا ہے ویسا کوئی نہیں پہچانتا۔ شیخ بختیار بےچارہ مال و اسباب عزت و جاہ کو چھوڑ کو جونپور سے ردولی آگیا ہے اور صدق دل سے آپ کی خدمت میں مصروف ہے۔لہذا اس پر نگاہ خاص فرمائیں۔
حکمِ شیخ کی تعمیل:ایک روز حضرت شیخ احمد عبد الحق ردولوی چشتی صابری علیہ الرحمۃ نے آپ سے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ خانقاہ کے صحن میں کنواں کھودا جائے۔ آپ نے اتنی بات سننے کے بعد فوراً زمین کی کھدوائی شروع کردی۔اور کنواں کھود کر پانی نکالا اور حضرت شیخ کی خدمت میں پیش کردیا۔ شیخ نے وہ پانی دیکھ کر کہا اللہ اکبر اور اس پانی پر کچھ پڑھ کر لوگوں میں تقسیم کرادیا۔ پھر شیخ نے فرمایا اے بختیار اس کنویں کو باہر کی مٹی سے بھر دو اور جو مٹی کنویں سے نکلی ہے اس کا ایک چبوترہ (یعنی بیٹھنے کی جگہ)بنا دو۔ چنانچہ آپ نے پھر ایسا ہی کیا جیسا کہ شیخ نے ارشاد فرمایا تھا۔ اور اپنے شیخ سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ کنویں کو کھودنے اور دوبارہ بھرنے اور ختم کرنے سے کیا مقصد تھا۔
مال و زر سے بے نیازی:ایک دن حضرت شیخ احمد عبد الحق ردولوی چشتی صابری علیہ الرحمۃ اپنے کمرے میں تشریف فرما تھے اور حضرت شیخ بختیار ان کے سامنے کھڑے ہوئے تھے۔ اچانک شیخ احمد عبد الحق ردولوی علیہ الرحمۃ نے فرمایا بختیار کیا دیکھتے ہو؟حضرت شیخ بختیار چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب کمرے کو بغور دیکھا تو سونے سے بھرا ہو پایا۔اس کے بعد حضرت شیخ احمد عبد الحق نے فرمایا کہ بختیار اگر ضرورت ہو تو اس میں سے کچھ لے لو۔میں نے عرض کیا حضرت مجھے اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔اس کے بعد حضرت شیخ احمد عبد الحق ردولوی علیہ الرحمۃ نے فرمایا اچھا اب دیکھو۔میں نے جب دوبارہ کمرے کو دیکھا تو کمرہ مجھے اپنی اصلی حالت میں نظر آیا۔آپ کے بارے میں یہ سب کو معلوم تھا کہ آپ بالکل ان پڑھ تھے۔مگر شیخ کامل کی صحبت و برکت اور فیض سے خدا نے وہ بات پیدا کردی تھی کہ ہر بات آپ کی عین قرآن و حدیث کے مطابق ہوتی تھی۔
تاریخ وصال:آپ کا وصال باکمال 910 ھ مطابق 1504 ء کو تقریباً ایک سو برس کی عمر میں ہوا۔ مزار پُر انوار ردولی شریف ضلع بارہ بنکی انڈیا میں مرجع خاص و عام ہے۔
ماخذ ومراجع: انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام جلد3۔