آپ حضرت خواجہ سلیم چشتی کے خلیفہ تھے آپ فتح پور سکیری کے پہاڑ کی چوٹی پر عبادت میں مشغول رہتے تھے ایک دن شیخ سدھاری جو حضرت شیخ اسلیم کے خلیفہ تھے آپ کو دیکھنے کے لیے پہاڑی کی چوٹی پر گئے چند لمحے بیٹھے تو شیخ فتح اللہ نے ہوا میں اڑنا شروع کردیا شیخ سدھاری نے دوڑ کر آپ کا دامن پکڑا اور کھینچ کر نیچے لائے اور اپنی جگہ پر بیٹھا دیا۔ آپ نے کہا شیخ سدھاری تم جانتے ہو کہ میں کہاں جا رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں شیخ فتح اللہ نے بتایا کہ آج میرے پیر و مرشد اسلیم چشتی کی خانقاہ میں بہت سے بزرگ جمع ہوئے تھے حضرت غوثِ اعظم اُس مجلس سے واپس ہوتے ہوئے۔ اس طرف گزرے تھے میں اُن کی خدمت میں حاضری کے لیے آگے بڑھا جب تم نے میرا دامن پکڑا تو حضرت غوث اعظم نے مجھے اجازت دے دی تومیں واپس اپنی جگہ پر آگیا ورنہ میرا دامن تمہارے ہاتھ میں رہتا اور میں بغداد چلا جاتا۔
معارج الولایت کے مصنف نے لکھا ہے کہ شیخ فتح اللہ اَن پڑھ تھے اس لیے علماء کرام کو یہ اعتراض تھا کہ بے علم ولی اللہ نہیں ہوسکتا یہ بات آپ کے خلیفہ شیخ وجہیہ الدین نے سُنی تو آپ کو بڑی ناگوار گزری ایک دن حضرت شیخ فتح اللہ بڑے خوش بیٹھے ہوئے تھے اور شیخ وجہیہ الدین آپ کی خدمت میں حاضر تھے آپ نے فرمایا وجہیہ الدین آج جو کچھ مانگنا ہے مانگ لو اُنہوں نے آپ کے سامنے علماء کرام کا اعتراض پیش کیا اور عرض کی کہ آپ میری تسلی کروائیں آپ نے فرمایا کہ اعتراض کرنے والے عالم دین کومیرے پاس لے آؤ شیخ وجہیہ الدین ایک بہت بڑے عالم دین کو جسے آپ کی بے علمی پر اعتراض تھا۔ لے آئے۔ آپ نے اُس عالم دین کو فرمایا آپ جو کتابیں چاہیں میں اُسے پڑھ کر سُنا دیتا ہوں۔ اُس عالم دین نے ہدایہ پیش کی آپ نے پوچھا کہ اس کو اوّل سے پڑھوں یا آخر سے یا درمیان سے انہوں نے کہا کہ درمیان سے پڑھیں۔ آپ نے شیخ وجہیہ الدین کو کہا میں زبانی پڑھتا جاتا ہوں اور تم لکھتے جاؤ۔ آپ نے تقریباً دو صفحے پڑھ دیئے اور لکھی ہوئی عبارت اُس عالم دین کو دی اور فرمایا کہ یہ عبادت کتاب کی تحریر سے ملا لو۔ وہ عالم دین حیران رہ گیا اُسی دن کے بعد تمام علماء کرام آپ کے معتقد ہوگئے۔
جب حضرت شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ فوت ہوئے تو آپ کے بڑے بیٹے شیخ احمد نے فتح اللہ کو ایک خط لکھا کہ دعا فرمائیں تاکہ بارش ہو جب خط پہنچا تو شیخ فتح اللہ جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ خط پڑھتے ہی فوراً اٹھے اور بیابان میں نکل گئے اور وہاں گرم دھوپ میں بیٹھ گئے اللہ کی بارگاہ میں التجاء کی کہ جب تک رحمت کی بارش نہ ہوئی میں یہاں سے نہیں اٹھوں گا آپ نے یہ کہہ کر لوگوں سے کہا کہ آسمان کی طرف دیکھو کہ بادل کا کوئی ٹکڑا دکھائی دیتا ہے لوگوں نے کہا کہ ایک ٹکڑا فتح پور کی طرف بڑھ رہا ہے آپ اٹھے اور خط کا جواب لکھا کہ اگر نمازِ جمعہ کے بعد فتح پور میں بارانِ رحمت ہوگئی تو مجھے لکھیں فی الواقعہ فتح پور میں اتنی بارش ہوئی کہ لوگ سیراب ہوگئے اورہر طرف سبزہ لہرانے لگا۔
شیخ ابوالفتح ۹۹۹ھ ہجری میں فوت ہوئے۔
یافت چون ابوالفتح فتح کار خویش
باہزاران فتح در ملک جنان
سال وصل او بگو مفتاح عشق
ہم بخوان فیاض حق ای مہربان
وفات: نو سو ننانوے ہجری ۹۹۹ھ