آپ پیر کبار کی اولاد سے تھے اہل تجرید، تفرید اور تقویٰ میں بدرجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے سات بار حج کیا چہرے پر برقعہ رکھا کرتے تھے تاکہ کسی نامحرم کی ناموس پرنگاہ نہ پڑے لیکن اِس کے باجود ان کے دل پر وہ کیفیت طاری نہ ہوئی جو کامیابی کی علامت ہوتی ہے وہ کئی اولیا اللہ کے پاس گئے التجائیں کیں امداد طلب کی مگر کام نہ بنا جب وہ ساتویں بار حج کرنے گئے تو وہاں کھڑے ہوکر اللہ سے رو کر التجاء کی غیب سے حاتف نے آواز دی کہ آپ کا کام شیخ عیسیٰ مشوانی رحمۃ اللہ علیہ سر انجام دیں گے چنانچہ مکہ سے چل کر ہندوستان آئے اور شیخ عیسیٰ مشوانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچے شیخ عیسیٰ ملامتیہ طریقہ کے مالک تھے وہ کھلے عام شراب نوشی کرتے شیخ حاجی رحمۃ اللہ علیہ چونکہ بہت ہی نیک اور متقی آدمی تھے وہ شیخ عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس نہ گئے اور دل میں آیا کہ یہاں سے لوٹ چلوں شیخ عیسیٰ نے کشفی طور پر آپ کے دل کی بار معلوم کرلی اور آواز دے کر اپنے پاس بلایا اور فرمایا تم جس شخص کے پاس بھی گئے ہو تمہارا کام نہیں ہوا آخر کعبۃ اللہ میں جاکر تم نے التجاء کی اور وہاں سے میرے پاس آنے کا حکم ہوا اب ملاقات کے بغیر واپس چلے جانا عقلمندی نہیں شیخ عیسیٰ کی زبان سے یہ باتیں سن کر حاجی گگن بے حد معتقد ہوگئے اور قدموں میں دوزانوں ہوکر بیٹھ گئے شیخ عیسیٰ نے اشارہ کیا کہ وہ شراب کی صراحی پڑی ہے اسے اٹھا کر میرے پاس لاؤ شیخ حاجی اُٹھتے اٹھتے رک گئے اور ان کے دل پر انکار کا غلبہ دوبارہ آگیا چنانچہ شیخ عیسیٰ اُٹھے شراب کی صراحی کو پکڑا اور شیخ حاجی کے منہ میں انڈیلتے گئے شیخ شراب کے چند گھونٹ پی کر بے خود ہوگئے جب ہوش میں آئے تو زہد و تقویٰ کا خیال دل سے نکال دیا عشق و محبت کے لباس میں ملبوس ہوگئے تمام کپڑے اتار پھینکے صرف ضروری ستر کے لیے ایک چادر پہن لی اکثر بیہوش رہے اور نماز بھی ادا نہ کرتے دنیا والوں سے نہ ملتے سر داڑھی ابرو اور مژگان کو صاف کردیا اور کہنے لگے یہ دنیا غداروں کی زینت ہے اس کو دور کردینا چاہیے اکثر سماع کی مجلسوں میں بیٹھتے اور آگ کا ایک آتش دان سامنے رکھتے کچھ لوگ آپ کے سامنے خود آگ جلا دیتے آپ کے پاس جو بھی نذرانہ آتا آپ اُس آگ میں ڈال دیتے۔
معارج الولایت میں لکھا ہے کہ آپ کے پاس ایک افغانی آیا جس کی اولاد نہیں تھی اُس نے اولاد کے لیے التجاء کی آپ نے فرمایا کہ میں اس شرط پر دعا کرتا ہوں کہ پہلا بیٹا مجھے دے دینا جب بچہ پیدا ہوا تو شیخ نے وہ بچہ اُس سے لے لیا اور آگ میں پھینک دیا وہ آدمی یہ صورت حال دیکھ کر دہشت زدہ ہوگیا اور کہنے لگا کہ میں اپنے بیٹے کو جلانے کے لیے نہیں لایا تھا آپ نے فرمایا چھوڑو اِسے پکنے دو اُس آدمی نے غصّے میں آکر کہا میرے بچے کو آگ سے نکال کر مجھے دے دو۔ آپ نے فرمایا میں نے تمہارے بچے کو جلایا نہیں اپنے گھر جاؤ وہ پنگھوڑے میں کھیل رہا ہوگا وہ گھر آیا بچے کو صحیح سالم پنگھوڑے میں کھیلتے دیکھا۔
کہتے ہیں کہ حاجی گگن اس لیے آگ جلائے رکھتے تھے کہ ان کی طبیعت جلالی تھی اور اللہ کا جلال اُن پر غالب تھا آپ بھی چونکہ آگ بھی مظہر جلال الٰہی ہے آپ اُسے اپنے سامنے رکھتے آپ کی وفات کے بعد لوگ اُن کے نام پر آگ جلائے رکھتے اور نذر مانا کرتے تھے کہ اگر ہمارا فلاں کام ہوگیا تو ہم جمعرات کی رات کو حضرت شیخ حاجی کے لیے آگ جلائیں گے۔ جب وہ کام ہوجاتا تو آگ جلائے رکھتے۔
شیخ حاجی ۱۰۴۳ ہجری میں فوت ہوئے اور آپ کا مزار پُر انوار قصور میں موجود ہے۔
چو حاجی قبلۂ اہل جنان شد
سال رحلت آں شیخ اعظم
دلم فرمود حاجی صاحب ذکر
فرد گفتار کہ حاجی فخر عالم
۱۰۴۳ھ