آپ حضرت نور الدین قطب عالم کے خلیفہ تھے اور اپنے وقت کے عظیم مشائخ میں شمار ہوتے تھے۔ آپ کے ملفوظات رفیق العارفین میں آپ کے مقامات اور کرامات کو بیان کیا گیا ہے۔ آپ خود لکھتے ہیں کہ خلافت حاصل کرنے کے بعد میں نے سات سال تک فاقہ کشی کی۔ اور فقیری میں بسر کی۔ پیاس لگتی تو پانی لیتا اور یاد خداوندی میں مشغول ہوجایا کرتا تھا۔ ایک روز میرے ایک بیٹے نے بھوک اور پیاس سے تنگ آکر روتے روتے میرے گلے میں باہیں ڈال دیں۔ میں نے بیٹے کی تکلیف اور رونے سے متاثر ہوکر صرف اتنا کہا۔
اے عجبا ۔ چوں توئی ۔ ہمچومنی ۔ دانہ بس۔
(ترجمہ: تعجب ہے۔ جب تو میرا مالک ہے۔ اور میں تیرہ بندہ ہوں۔ تو ایک ایک دانے کو ترس جاؤں۔ اسی وقت ایک شخص کھانے کا ایک طباق اٹھائے آیا حالانکہ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ ایک اور شخص ایک من دال لے کر آگیا مجھے بڑی ندامت ہوئی۔ کہ میں نے کیا کردیا کہ لوگ کھانا اور دال لیے آرہے ہیں۔ میں نے اپنے آپ کو لعن طعن کیا اور بڑی ملامت کی۔
ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ مجھے کتابیں تو بہت یاد تھیں۔ مگر جب میں اپنے پیر و مرشد کے پاؤں پر اپنا سر رکھا تو مجھے سب کچھ بھول گیا۔ مگر مجھے وہ علم عطا ہوا۔ کہ اگر کوئی عالم دین میرے سامنے کتاب ہدایہ لے آئے تو میں اس کا سارا مطلب تصوف اور سلوک میں بیان کردوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ابتدائے کار میں میرے والد اس لیے ناراض تھے کہ میں نے مشکل سے علم حاصل کیا تھا۔ اسے کیوں برباد کردیا ہے۔ یہ بات جب میرے پیر و مرشد نے سنی تو فرمایا۔ کہ درویش کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو نوک شمشیر کے نیچے رکھے لیکن علماء چاہتے ہیں کہ لوگوں کو اپنی تلوار کے نیچے رکھیں مرد حق وہ ہے جو دونوں کام کرے تلوار چلانا بھی جانتا ہو اور تلوار کے سامنے گلا کٹانے کے لیے بھی تیار ہو اَلمَاءُ بِمَالَہٖ والرَّحَلْ بمالہٖ۔ میرے جذبات کا یہ عالم تھا۔ کہ میرے لبوں پر اللہ کا نام لینا مشکل تھا۔ اگر لب پر لفظ اللہ آجاتا تو میں بے تاب ہوجاتا۔ اور لوگ مجھے دیوانہ سمجھنے لگتے تھے۔ جب میں اپنے پیر کی تلاش میں گھر سے نکلا تو قدم قدم سے آواز آتی چلے آؤ۔ میں تمہارے سامنے ہوں۔ فکر نہ کرو آؤ۔ آؤ۔
ایک دن میں کشتی میں سوار ہوا۔ تو میرے ساتھ ہی ایک پھٹے پرانے کپڑوں والا درویش بھی سوار تھا۔ کشتی پانی سے کنارے پر آگئی۔ مگر وہ درویش دریا میں ڈوب گیا۔ کسی شخص نے اس کے ڈوبنے کی طرف خیال تک نہ کیا۔ میں موضع پنڈوہ میں آیا حضرت کے قدم چومے۔ غور سے دیکھا۔ تو حضرت قطب العالم وہی ڈوبنے والے درویش تھے‘‘۔
شیخ حسام الدین مانک پوری ۸۸۲ھ میں فوت ہوئے۔
چوں حسام الدین شہِ ہر دوسرا
رفت از عالم بفردوس بریں
گفت سال انتقال او فرد
ہادی مشکل کشا مطلوب دین