صوفی راشد برہان پوری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: سید محمد مطیع اللہ راشد۔معروف: صوفی راشد برہان پوری ۔سلسلہ ٔنسب: ضلع دادو سندھ کے قریب قصبہ پاٹ شریف مرکز علم و فضل تھا ، اور یہاں کے سر بر آوردہ صدیقی علماء کا خاندان بھی ٹھٹھہ، گجرات، مالوہ اور دکن ہوتا ہو اخاندیش کے دارلحکومت برہان پور پہنچا۔ یہ 950ہجری کا زمانہ ہے ، یہاں فاروقی سلاطین حکمران تھے۔
پاٹ شریف کے اس خانوادے کے دو افراد شیخ محمد طاہر محدث سندھی (مصنف تفسیر قرآن عربی مجمع البحار قلمی) اور بابا قاسم تھے جو علم و فضل اور فقرو تصوف کے آفتاب اور ماہتاب تھے۔ انہوں نےیہاں کےحالات کےپیش نظرسندھ سےبرہان پور کی طرف ہجرت فرمائی۔بادشاہ برہان پور نے ان کی زبردست پزیرائی کی رہائش و درس تدریس کیلئے شاہی محل کی عمارت دے دی ۔ وظائف اور جاگیریں عطا کرکے فکر معاش سے آزاد کردیا اور انہوں نے یکسوئی کے ساتھ ترویج و اشاعت علم پر توجہ مبذول کردی۔ حضرت شیخ قاسم بوجوہ ایلچپور(برار) میں مقیم رہے اور وہیں وصال ہوا۔ جب کہ شیخ محمد طاہر محدث برہان پوری، برہان پور میں رہے۔ حضرت شیخ قاسم کے تین فرزندوں میں حضرت مسیح الاولیاء شیخ عیسی جند اللہ سندھی قدس سرہ العزیز ہی وہ بزرگ ہیں جن کے طفیل آج بھی برہان پور اور اطراف و جوانب میں علوم دینیہ اور روحانی فیوض جاری ہیں۔(تذکرہ انوار علمائے اہل سنت سندھ:288)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1895ء کوساداتِ کرام کےعظیم خانوادے میں پیداہوئے۔ ننھیال کی طرف سے آپ کو ’’سندھی نژاد‘‘بھی کہا جاسکتا ہے۔ جب کہ اجداد سادات کے عظیم خانوادے کے چشم و چراغ ہیں یعنی حضرت شیخ محمد بن فضل اللہ جو ’’نائب رسول اللہ ‘‘ کے لقب سے مشہور ہیں اور دسویں صدی ہجری میں گجرات میں پیدا ہوئے، برہان پو رمیں رہے اور یہیں آپ کا مزار ہے۔وہ خود لکھتے ہیں: ’’راقم الحروف راشد،شیخ محمد فضل اللہ نائب رسول اللہ کی اولاد نرینہ سے شجرہ نسب مربوط رکھتا ہے اور حضرت مسیح الاولیاء کے اخلاف میں ننھیال ہے اور سسرال بھی ‘‘(انوار علمائے اہل سنت سندھ:288)
تحصیلِ علم: آپ نے اسکول سے تعلیم حاصل کی جب کہ ان دنوں تعلیم عربی فارسی ہی رائج تھی، اردو فارسی اور ہندی زبانوں پر آپ کو عبور حاصل رہا ہے۔ نہ صر ف یہ بلکہ آپ نہایت خوشخط اور نہایت نفیس طرز تحریر کے حامل بھی رہے ہیں۔
بیعت وخلات: اس سلسلے میں کوئی راہنمائی نہ مل سکی۔
سیرت وخصائص: صاحبِ اوصافِ کثیرہ،وخصائلِ حمیدہ،شاعرِ اہل سنت مولانا صوفی راشد برہان پوری،آپصاحبِ ذوق اور صاحبِ علم شخصیت تھے۔ساری زندگی علم پروری اور تصنیف وتالیف میں مشغول رہے۔برہان پور میں اسکولوں ومختلف اداروں میں شعبۂ تدریس سےوابستہ رہے۔
شاعری:نہ صرف نثر نگاری پر عبور تھا بلکہ شاعری سے بھی کما حقہ شغفف رکھتے تھے۔حمد،مناجات،نعت،مناقب اورشہدائے کربلا و اہل بیت کرام کے حضور میں سلام کے نذرانے بھی چار حصوں میں پیش کئے ہیں۔نیزغزل،قصیدہ،رباعی وغیرہ تمام مروجہ اصناف سخن پر دسترس حاصل تھی۔آپ نے اصلاح سخن کیلئے حضرت فخر الدین حاذق برہان پوری سے شرف تلمذ حاصل کیا ۔ آپ کے کلام میں ناسخ لکھنوی کا رنگ نمایاں ہے کیوں کہ آپ کے استاد حضرت حاذق،عشاد لکھنوی سےشرف تلمذ رکھتے تھے اور وہ حضرت ناسخ لکھنوی کے شاگرد رشید اور جانشین تھے۔آپ کی ایک نظم ’’عورت کے درجات‘‘ کو بھی مقبولیت حاصل ہوئی جس میں بچپن ، لڑکپن ، جوانی ، ادھیڑ عمر اور پختہ عمری کے درجات میں اس کی زندگی کے مختلف ادوار بیان فرمائے ہیں۔
انتخاب کلام:
یہ شرف نصیب ہوا ہمیں یہ عطائے رب انام ہے۔۔۔۔کیا اس رسول کا امتی جو پیمبروں کا امام ہے۔
مرا سر مزار رسول سے نہ ہٹائو دیکھو مجاورو!۔۔۔مری آرزوئیں نہ قتل ہوں کہ حرم میں خون حرام ہے
تصنیف و تالیف: جناب راشد برہان پوری ادیب ،شاعر،محقق،مؤرخ اور صوفی تھے۔ تاریخ و سوانح اور تصوف سے خاص طبعی میلان رکھتے تھے۔ آپکی کتاب ’’برہان پور کے سندھی اولیاء‘‘قابل مطالعہ ہے۔اسی طرح ’ تذکرہ حضرت شاہ بھکاری برہان پوری‘التحفۃ المرسلہ الی النبی ﷺ،وحدت الوجود،عورت کے درجات،ریاض الشہداء چار حصے۔مولانا راشدی زیدمجدہ تحفہ مرسلہ کی تالیف سبب بیان کرتےہوئے فرماتے ہیں:’’حضرت عارف کامل سید محمد بن فضل اللہ العرف نائب رسول اللہ ﷺ برہان پوری جب حج کرنے گئے تو دوران حج مکہ معظمہ میں انڈونیشی علماء کا وحدت الوجود کے مسئلہ پر اختلاف پایا۔ آپ نے اس مسئلہ پر عربی میں مقالہ تحریر کیا اور پھر دربار نبوی ﷺ میں پیش فرما کر قبولیت کی درخواست کی، چنانچہ اس کا نام ’’التحفۃ المرسلہ‘‘ تجویز فرمایا، پھر جاوا اور سماٹرہ تشریف لے گئے اور وہاں کے علماء کو پیش کیا، جس پر سب نے اتفاق کیا اور باہم شیر و شکر ہوگئے۔ کیا جذبہ تھا کہ اختلاف مٹانے کی غرض اور صحیح فیصلہ سنانے کی غرض سے اس قدر طویل سفر اختیار کیا جس کا دنیوی کوئی فائدہ نہیں تھا۔(انوار علمائے اہل سنت سندھ:290) اللہ تعالیٰ آج کےعلماء کوبھی یہ جذبۂ خیر عطاء فرمائے۔آمین
تحریکِ پاکستان میں خدمات: آپ برہان پور میں مسلم لیگ کے سر گرم کارکن تھے۔ آپ کا مکان تحریک پاکستان کا مرکز تھا۔ جذبۂ آزادی کو اجاگر کرنے کیلئے ملی نظمیں لکھتے تھے جنہیں سن کر عوام الناس میں جذبہ حریت بیدار ہوتا اور تحریک پاکستان کیلئے مسلم لیگ میں شامل ہو کر شانے سے شانہ ملا کر شب و روز کام کرتے تھے۔جب پاکستان بن گیا تو وہ انڈین حکومت کی نظر میں کھٹک رہے تھے لہذا احباب کے مشورے پر برہان پور سے نقل مکانی کرکے حیدرآباد دکن ریاست چلے گئے لیکن پھر سقوط حیدرآباد کے بعد پاکستان کراچی سمندری راستہ سے آگئے ان حوادث و عوامل کی وجہ سے آپ کا کتب خانہ تباہ ہوگیا۔ بہت قیمتی علمی سرمایہ تلف اور قلمی نوادرات ضائع ہوگئے۔
تاریخِ وصال: حضرت راشد برہان پوری نے 19/ شوال المکرم 1379ھ بمطابق 16/ اپریل 1960ء کو ۶۵ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ آپ کی رہائش نمائش (نورانی چورنگی) نزد ختم نبوت مسجد کے پاس تھی اس لئے وہیں نماز جنازہ ہوئی، اس وقت یہ مسجد شریف اہل سنت و جماعت کی تھی بہت بعد میں اس پر وہابیوں نے قبضہ کیا۔شاہ فیصل کالونی گیٹ کے متصل قبرستان میں تدفین ہوئی جہاں آپ کی آخری آرام گاہ ہے۔
ماخذ ومراجع: انوار علمائے اہل سنت سندھ۔