حضرت سید علی قوام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
بڑے صاحب کمال و حال تھے جذب و سکر میں مشہور تھے لیکن آپ کی طبیعت ایک حال پر نہ رہتی تھی کبھی خرقہ مشائخ پہنا کرتے کبھی سپاہیانہ لباس پہن لیتے تھے آپ سادات سوانہ سے تھے مگر خلافت شیخ بہاء الدین جونپوری قدس سرہ سے پائی تھی آپ کو مقبولیت خاص اور حالت مخصوص حاصل ت ۔۔۔۔
حضرت سید علی قوام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
بڑے صاحب کمال و حال تھے جذب و سکر میں مشہور تھے لیکن آپ کی طبیعت ایک حال پر نہ رہتی تھی کبھی خرقہ مشائخ پہنا کرتے کبھی سپاہیانہ لباس پہن لیتے تھے آپ سادات سوانہ سے تھے مگر خلافت شیخ بہاء الدین جونپوری قدس سرہ سے پائی تھی آپ کو مقبولیت خاص اور حالت مخصوص حاصل تھی فتوحات کے دروازے آپ پر کھلے تھے چار بیویاں تھیں فتوحات مریدوں سے کرتے تھے کہتے ہیں چالیس سال تک آپ نے کسی خادم یا ملازم کو نہ حکم دیا اور نہ کوئی چیز مانگی مگر آپ کا ہر کام آپ کی مرضی کے مطابق ہوتا رہا ایک رات اٹھے اور بیٹھے ہوئے تھے وہ خادم جوہررات آپ کے وضو کے لیے پانی لایا کرتا تھا بھول گیا آپ نے اندھیرے میں ہر طرف ہاتھ مارے مگر پانی کہیں نہ ملا پھر سو گئے چند لمحوں بعد پیاس لگی دوبارہ اٹھے پیاس کی شدت ہوئی موت قریب آتی نظر آئی مگر اس حالت میں بھی کسی کو آواز دے کر پانی نہ مانگا مرنا قبول کرلیا مگر وہ عبادت نہ چھوڑی آخری بار اِدھر ادھر ہاتھ مارے تو غیب سے پانی کا ایک کوزہ آیا اللہ کا شکر ادا کیا پانی پیا اور وضو کرکے سجدہ میں گر گئے۔
فرمایا کرتے تھے ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی آپ نے فرمایا علی تم اپنے دروازے پر ڈھول بجاتے رہتے ہو میں نے عرض کی یا رسول اللہ یہ ڈھول بھی آپ کا ہی ہے اور دروازہ بھی آپ کا عطا کردہ ہے علی بیچارے کی کیا حقیقت ہے؟ حضور نے فرمایا علی میری امت کے لیے دعائے خیر کیا کرو تمہاری دعا قبول ہوجاتی ہے تم مستجاب الدعوات ہو۔
آپ فرمایا کرتے تھے مجھے ان لوگوں پر تعجب آتا ہے کہ قوالوں کو فرمائش کرتے ہیں کہ فلاں غزل سناؤ فلاں نعت پڑھو مجھے جو غزل اور نعت سناتے ہیں اچھی لگتی ہے۔
صاحب اخبار الاخیار نے آپ کا سن وفات ۹۵۰ھ لکھا ہے اور مزار پُر انوار جونپور میں ہے۔
سال وصالش چو بجستم زول
گفت کہ مخدوم معلی علی
۹۵۰ھ