سلطنت مغلیہ کا آخری دور تھا۔ ہندو مسلم اختلاط اور اکبر بادشاہ کے پھیلائے ہوئے دین الٰہی کی وجہ سے دین اسلام کی ضیاء پاشی ماند پڑچکی تھی حالانکہ سلطان اورنگزیب عالمگیر نے بڑی حد تک دین الٰہی کے پیدا کردہ فتنوں پر قابو پالیا تھا اور ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ جیسی بلند پایہ کتاب معرض وجود میں آچکی تھی۔ اسی دور پر فتن میں حضرت مولانا جلال الدین کے آبائو اجداد نے احیاء دین کی خاطر ہندوستان کی جانب نقل مکانی کی اور ضلع بجنور کے قصبہ سہسپور مین آباد ہوئے۔ آپ کے خاندان میں کافی علماء و مشائخ گزرے ہیں۔ آپ کے نانا جان حضرت مولانا سید فرید الدین اور ماموں جان حضرت مولانا سید اصغڑ علی کا شمار وقت کے جید علماء و مشائخ مٰں ہوتا تھا۔
آپ کے والد ماجد حضرت صوفی سید عبدالشکور ایک عابد و زاہد شخص تھے۔ شریعت مطہرہ کے پابند تھے، انہوں نے اپنے کاندان کی ایک نہایت متقی پرہیزگار و نیک سیرت خاتون حضرت برکت فاطمہ سے نکاح کیا۔ اور ۱۹۱۰ء کی ایک سہانی اور مبارک صبح کو سید جلال الدین تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
مولانا جلال الدین نے قریبی مدرسہ میں ۸ سال کی عمر میںکلام پاک ناظرہ ختم کیا ہی تھا کہ والد مکرم کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا اور مسئلہ فکر معاش پیدا ہوگیا۔ آپ کی والدہ ماجدہ کو آپ کی تعلیم کی فکر تھی جب کہ اعزہ کا مشورہ تھا کہ کسی کام کا ج پر لگا دیا جائے۔ بالآخر آپ کی والدہ نے جمع شدہ پونجی دے کر چپکے سے حصول علم کیلئے آگرہ روانہ کردیا۔ آگرہ اس وقت دینی علوم کا مرکز تھا۔ ۱۲ سال کی عمر میں آپ نے آگرہ میں کلام پاک حفظ کر لیا۔ وقت کے جید علماء سے تعلیم حاصل کی، ’’مدرسہ شعیب محمد یہ‘‘ آگرہ سے بیس سال کی عمر میں رمضان المبارک ۱۳۵۳ھ/۱۹۳۸ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔ آپ کے اساتذہ کرام میں نامور علمی شخصیت حضرت مولانا روشن الدین کی تھی۔ جن سے آپ نے خصوصی طور پر استفادہ کیا تھا۔ ان کا سلسلہ اساتذہ چند واسطوں سے حضرت شیخ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہٗ کے نامور فرزند عارف کامل، عاشق خیر الوریٰ حضرت علامہ شیخ عبدالعزیز محدث دہلوی قدس سلرہٗ النورانی سے جاکر ملتا ہے۔
آپ نے دوران تعلیم بڑی صعوبتیں اٹھائیں، گزر اوقات کیلئے کئی جگہ پر ملازمت اختیار کی لیکن والدہ محترمہ نے جس مقصد کیلئے بھیجا تھا اسے ادھورا نہ چھوڑا۔ اپنے تعلمی دور کا ایک واقتہ سناتے تھے کہ ہمارے دور میں مدرسوں میں اس قدر آسانیاں نہیںہوتی تھیں، جتنی کہ آج ہیں طلباء کو بہت سے کام خود کرنے پڑتے تھے۔ باری باری جنگل سے دو طالب علموں کو روزانہ لکڑیاں کاٹ کر لانی پڑتی تھیں جس سے مدرسہ کے طلباء کا کھانا پکایا جاتا تھا۔ ایک دن میری اور میرے ایک ساتھی کی باری تھی ہم دونوں لکڑیاں کاٹنے جنگل میں چلے گئے اس دوران میرے ساتھی کو پیاس لگی ہم ایک جنگل میں بنے ہوئے گھر کی طر ف گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا اندر سے ایک عورت جوان عمر کی نکلی ہم نے اس یس پانی طلب کیا وہ بول اندر آجائو ہم دونوں اندر چلے گئے اس نے جھٹ دروازہ بند کردیا او رمیرے ساتھی سے جو بہت کوبصور جوان تھا بولی کہ پہلے میرا مقصد پورا کرو پھر پانی پلائوں گی۔ اس نے انکار کیا تو بولی کہ اگر تم یہ کام نہیں کروگے تو میں شور مچائوں گی اور تم دونوں پکڑے جائو گے۔ ہم دونوں نے اس کی بڑی منت سماجت کی لیکن وہ کسی طرح ماننے کو تیار نہ تھی اور دھمکی دیتی کہ جلدی کمرے میں چلو ورنہ میں شور مچادوں گی۔ بالآخر میرے ساتھی نے کہا کہ ٹھہر میں پیشاب کر آئوں اس نے کہا جائو جلدی کرکے آئو میرا ساتھی پیشاب خانے میں چلا گیا اور باہر نکلا تو اس طرح کہ جسم پر لباس پر غلاظت ملی ہوئی تھی اورعورت کے سامنے رک کر بولا چلو ۔ اس عورت نے جو اس کو اس حال میں دیکھا تو سخت غصہ ہوئی اور دروازہ کھول کر ہم دونوں کو باہر نکال دیا۔ مولانا جلال الدین اپنے مریدین کو یہ واقعہ سنا کر بتاتے تھے کہ طالب علم ایسے ہوتے تھے کہ اپنی عصمت کی حفاظت کرنا خوب جانتے تھے۔
بیعت وخلافت:
علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد علوم باطنی کی تشنگی ہوئی اس لئے مرشد کامل کی تلاش شروع کی۔ چنانچہ اپنے وقت کے ولی کامل حضرت حاجی سید اال حسن چشتی صابری المعروف کامل شاہ علیہ الرحمۃ (متوفی ۱۹۶۲ء مدفون پاپوش نگر قبرستان) کی خدمت میں پہنچے تو بہت متاثر ہوئے اور انہیں کے ہاتھ پر چشتیہ صابریہ سلسلے میں بیعت ہوئے۔
ریاضت:
رمضان المبارک میں ہر ترویحہ (چار رکعت تراویح) میں جس قدر کلام پاک سنایا کرتے اس کا ترجمہ مقتدیوں کو سناتے لوگ کمال توجہ سے سنتے ذرا نہ اکتاتے تھے۔ شب زندہ داری معمول تھی، اکثر عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھا تے۔ ایک مرتبہ شبینہ میں ایک رکعت میں ۲۹ پارے سنائے اور باقی ایک پارہ بقیہ رکعت میں پورا کیا۔
مستجاب الدعوات:
خشک سالی میں لوگ دور دور سے دعائے باران یلئے حاضر ہوتے۔ آپ ان سے فرماتے جو کہوں گا وہ کرو گے؟ لوگ اقرار کرتے آپ فرماتے ’’خوب روئو پھر خود بھی خوب روتے ہوئے بارگاہ الٰہی میں بصدر عجز و انکسار دعا کرتے پھر یہ ہوتا کہ آسمان پر بادل چھا جاتے اور بارش ہوتی۔‘‘
خطابت:
فارغ التحصیل ہونے کے بعد آگرہ (انڈیا ) کی عید گاہ مسجد میں امامت اختیار کی ۔ لیکن کچھ عرصہ بعد لوگوں کے اصرار پر مسجد خواجہ سراء آ گرہ تشریف لے گئے اور تقسیم ہند تک اسی مسجد میں خدمات انجام دیتے رہے ۔آگرہ میں آپ کے و عظ کی دھوم مچی ہوئی تھی دوردراز سے لوگ و عظ سننے آپ کی مسجد میں آتے تھے ۔
ایک بار انبالہ شہر میں ایسا ہو ا کہ کچھ طوائفیں آپ کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ ہمارے ہاں بھی واعظ فرمائیں ۔ آپ نے فرمایا: وعظ کی فیس لیتا ہوں ۔ وہ بولیں ہم دے دیں گے ۔ آپ حسب وعدہ ان کے ہاں وعظ کے لئے تشریف لے گئے اور ایسا مدلل بلیغ اور پر اثر وعظ کیا کہ سامعین مع طوائفیں رونے لگیں ۔ وعظ کے اختتام پر فرمایا: میری فیس دو۔ طوائفیں بولیں : آپ کیا فیس لیتے ہیں ۔ آ پ نے فرمایا : میری فیس روپیہ پیسہ نہیں ہے وہ کچھ اور ہے ۔ وہ بو لیں آپ کو کیا چاہئے ؟ آپ نے فرمایا: میری فیس یہ ہے کہ تم اس برے پیشہ سے توبہ کرواور آئندہ نیک زندگی بسر کرو ۔ تمام طوائفوں نے اسی وقت اس پیشہ بد سے ہمیشہ کے لئے توبہ کی ۔ آپ نے بستی والوں سے فرمایا : تمہارے جو ان آگے آئیں اور ان سے نکاح کریں انہیں بیوی بنا کر عزت دیں تاکہ یہ اپنی آئندہ زندگی شرافت و نیکی پر گذار سکیں ۔‘‘
مو لانا سید جلال الدین کو قرآن حکیم کی قرات میں کمال حاصل تھا ، صبح مسجد شریف میں قرات فرماتے تو راستہ میں چلتے ہوئے لوگ رک جاتے اور سننے میں محو ہو جاتے ۔ عورتوں کو یہ احساس تک نہ ہو تا تھا کہ ان کے سر پر پانی سے بھرا ہو ا گھڑا ہے ۔ آپ نے ہند میں ہندووں پنڈتوں اور عیسا ئی پادریوں سے مناظرے بھی کئے اور بعض اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے۔
پاکستان میں قیام :
قیا م پاکستان کے بعد انڈیا سے پاکستان کے بین الاقوامی شہر کراچی تشریف لائے اور کھارادر میں باغ زہرہ اسٹریٹ پر واقع او کھائی میمن مسجد میں امام و خطیب مقرر ہوئے ۔ کراچی میں تقریبا ۳۴ سال کا عرصہ تبلیغ دین ، ترویج مسلک اہل سنت میں گذارا ۔ بعد نماز عشاء درس قر آن مسلسل دیتے تھے۔ آپ کیمرشد کریم بھی ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور لیاقت آباد کراچی میں سکونت اختیار کی ۔ آپ کی عقیدت و محبت کا یہ عالم تھا کہ ٹاور سے پیدل لیاقت آباد مرشد کریم کی زیارت کو جا نا آپ کا معمول تھا اگر دروازہ بند ہوتاتو مرشد کریم کے دروازہ پر دستک دینا خلاف ادب سمجھتے اس لئے گلی میں بیٹھ کر انتظار کرتے ۔
شادی و اولاد :
آپ نے مسجد خواجہ سرائے آگرہ میں امامت کے دوران نکاح کیا ۔ آپ کی اہلیہ سے دو بیٹے (۱)سید محمد حسن (حنیف ) (۲) سید محمد بشیر حسین اور چار بیٹیاں تو لد ہوئیں ۔ (عرفان منزل مصلح الدین نمبر کراچی ۱۹۸۵ء ص ۲۱۷)
وصال :
مولانا سید جلال الدین نے ۱۲ ، جمادی الاخر ۱۴۰۲ھ بمطابق ۸، اپریل ۱۹۸۲ء کی شب جمعرات کو ۷۲ سال کی عمر میں انتقال کیا ۔ بروز جمعرات نماز جنازہ حضرت مولانا قاری محمد مصلح الدین صدیقی نے پڑھائی ۔ آپ کا مزار پر انوار کراچی کے پاپوش نگر قبرستا ن میں ’’احاطہ کا مل شاہ ‘‘میں مرجع خلائق ہے ۔ (ماخوذ:حیات عارف کامل مطبوعہ کراچی )
حضرت مولانا جلال الدین سنگراسی (تھر)
استاد العلماء ، صحرائے تھر کے روشن مینار حضرت مو لا نا حاجی جلال الدین سنگراسی بن حاجی دین محمد عرف حاجی الہڈنہ ۱۹۲۶ء کو گوٹھ بو ہٹ تحصیل چھوٹن ضلع باڑ میر صوبہ راجستھان (انڈیا) میں تولد ہوئے ۔ آپ کی نویں پشت میں مہران (جو کہ راجپوت سوڈ ھو تھے ) درگاہ شریف حضرت غوث بہاوالدین زیریا سہروردی قدس سرہ الاقدس (ملتان ) کے کسی سجادہ نشین کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے تھے ۔ اس دور سے اس خاندا ن کا خاندان غوثیہ کے بزرگان دین سے پیری مریدی کا سلسلہ جاری ہے ۔ آپ کے والد حاجی دین محمد، مخدوم میاں ولایت علی سہروردی (درگاہ بکیر اشریف تحصیل ٹنڈوالہیار ) سے بیعت تھے ،
تعلیم و تربیت :
حاجی دین محمد سنگر اسی نے اپنے بیٹے جلسل سلفین کع سپنے بھتیجے حافظ محمد عالم کے مکتب میں بٹھایا جہاں جلد قرآن شریف ناظرہ ختم کیا اوت دینی ضروری تعلیم حاصل کی ۔ اس کے بعد حافظ امام الدین چنہ (بلھیاری ) کے مدرسہ میں داخل ہوئے ، حافظ صاحب اہل اللہ اور نہایت متقی پرہیز گار تھے اور فارسی پر کامل دسترس رکھتے تھے ۔ اپنے ہو نہار طالب کا فارسی کی تعلیم سے سینہ مالا مال کیا اور دوسری طرف آپ نے اسکول سے فائنل کا امتحان پاس کیا ۔ اس کے بعد عربی کا پہلا سبق تھر کے مشہور و معراف عالم دین مولانا محمد امین ساند ( نفتء نغند ھان بقشبندی کے نانا تھے ) سے لیا۔ سبق دینے سے پہلے فرمایا: میں نے عر بی کا پہلا سبق آپ کے نانا سے کیا تھا راوتسر کے علاوہ دڑیلے والے مدرسہ میں مولانا رسول بخش چانڈیو کے پاس ، اس کے بعد کافی عرصہ گوٹھ ولی دادپلی میں مولوی ہدایت اللہ اس مدرسہ سے رخصت حاصل کر کے میر پور خاص کے قرب و جوار میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے تو مو لا نا جلال الدین استاد کے ساتھ اسی مدرسہ میں آگئے ۔ وہ قیام پاکستان کے دن تھے ۔ ہندوستان سے مسلمان کھوکھراپار کے راستہ سے میر پور خاص پاکستان آرہے تھے ، آپ طالب علم تھے اس کے باوجود مہاجرین کی اخلاقی و خوراکی امداد کی ۔ اس کے بعد مولانا مرید عکی ہالیپوتہ سے اسباق پڑھے جو کہ سندھ کے نامور عالم دین صحرائے تھر کے استاد الکل حضرت علامہ محمد عثمان قرانی ؒ کے شاگرد تھے ۔ بالاخر مولانا حبیب اللہ سمون کے آستانہ عالیہ تا میلھیار پر ۱۹۵۰کو ہو ئی ۔
بعد فراغت ایک عرصہ تک اہل سنت کے نامور عالم دین ، فاضل جلیل حضرت علامہ عبدالحق ساند المعروف مولوی سا نوائی سے اختلافی مسائل میں خوب استفادہ کیا۔ مولانا جلال الدین کو مولانا ساند سے بے پناہ محبت و عقیدت تھی ۔ مولانا ساند اہل سنت و جماعت کے یگانہ عالم اور عاشق رسول ﷺتھے۔ مولانا جلال الدین نے مدرسہ غوثیہ مجددیہ حقانی میں ’’حقانی ‘‘جو نام رکھا ہے یہ علامہ عبدالحق ساند کی جانب منسوب ہے۔
بیعت:
مو لانا جلال الدین نے علم ظاہری کی تکمیل کے بعد تزکیہ نفس کے لئے کامل پیر کی ضرورت محسوس کی ۔اس لئے کچھ (ہندوستان ) کے مشہور بزرگ پیر طریقت حضرت سید محبوب حسین شاہ جیلانی (لونی شریف) کے ہاتھ پر سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت ہوئے۔
سید صاحب متبحر عالم دین اور کشف و کرامت کے صاحب تھے۔ آپ کے جد کریم حضرت سید علی اکبر شاہ جیلانی علیہ الرحمۃ (درگاہ شریف ملا کاتیار ضلع حیدرآباد) سے سلسلہ نقشبدیہ میں خلافت و اجازت ملی ہوئی تھی۔آج کل آستانہ لونی شریف (کچھ، راجستھان) میں، ’’فیض اکبری‘‘ کے نامسے عظیم دینی درسگاہ قائم ہے جس کی کئی شاخین راجستھان میں مسلک اہلسنت وجماعت کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔
خطابت:
آپ صحرائے تھر میں دینی محافل کا اہتمام کرتے تھے، دور دراز گوٹھوں میں جا جا کر دین کا پیغام پہنچاتے ، تھر میں عید میلاد النبی ﷺ کے جلسے منعقد کرتے جس میں آپ خصوصی خطاب فرماتے۔ آپ نے تقریر کو ذریعہ معاش نہیں بنایا بلکہ ذریعہ تبلیغ سمجھ کر ادا کرتے۔ بیماری و علالت کے باوجود تقریر میں ناغہ نہیں فرماتے۔ آپ کی تقریر ناز و انداز سے پاک بالکل سادہ ہوا کرتی، مضمون کو احسن طریقے سے بیان کرکے بات کو دل و دماغ میں خوب بٹھاتے۔
آپ کی تقریر کے پسندیدہ موضوعات حضور پر نور ﷺ کی رفعت و عظمت ، فضائل و کمالات، شان معجزات، فضائل درود شریف اور اصلاح معاشرہ تھے۔
درس و تدریس:
مولانا جلال الدین سنگراسی بعد فراغت اپنے گوٹھ میں مدرسہ قائم کیا اور درس و تدریس میںمشغول ہوگئے۔ وہاں قیام کے دوران نادر نایاب کتب کا ذخیرہ جمع کیا تھا۔ لیکن ۱۹۶۵ء کی جنگ کے دوران پاکستان ہجرت کی تو مال ملکیت اور کتابوں کا ذخیرہ وہیں رہ گیا۔ تھر کے مختلف گوٹھوں میں قیام کیا بالآخر اپنی برادری کے ہمراہ ۱۹۷۱ء کے بعد دھاکلو میں مستقل سکونت اختیار کی ۔ آپ جہاں بھی رہے درس کا عمل جاری رکھا۔
۱۹۷۳ء کو دھاکلو (تحصیل چھاچھرو ضلع تھر پارکر مٹھی سندھ) میں مسجد شریف کے ساتھ ایک دینی درسگاہ بنام ’’مدرسہ غوثیہ مجددیہ حقانی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ مدرسہ کا نام نسبتوں سے جگمگا رہ اہے خاندانی پیر غوث بہائوالدین زکریا سہروردی کی نسبت سے غوثیہ، دادا پیر مجدد الف ثانی سرہندی کی نسبت سے مجددیہ اور استاد محترم علاہ عبدلاحق کی نسبت سے حقانی نام تجویز فرمایا۔ مدسہ کی تعمیر و ترقی اور تعلیم و تربیت کے پروگرام کو وسعت دینے کیلئے دیگر اساتذہ کا بھی اہتمام کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک لائبریری بھی قائم کی جس میں کافی نایاب و کم یاب کتابوں کا ذخیرہ بھی جمع کیا۔ آپ کو درس و تدریس سے عشق تھا، صحرائے تھر میں دن رات مسلسل درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور اہل سنت و جماعت کو علماء کی کھیب تیار کرکے دی جو صحرائے تھر میں حضور پر نور ﷺ کی عظمت کے ڈنکے بجا رہی ہے۔
تلامذہ:
حضرت مولانا جلال الدین سنگراسی کے تلامذہ کثیرہ میں سے چند نامور نام درج ذیل ہیں:
٭ صاحبزادہ مولانا حاجی عی محمد سنگراسی دھاکلو
٭ مولانا حاجی عبدالرحیم سمیجو
٭ مولانا محمد احسان سنگراسی
٭ مولانا محمدحنیف سموں
٭ مولانا عبدالمتین راہمون
٭ مولانا شکر الدین سمیجو
٭ مولانا عبدالرشید کاچھیلو
٭ مولانا یار محمد رضا
٭ مولانا محمد سلیم سنگراسی
٭ مولانا محمد خان حقانی
٭ مولانا محمد منظور سمیجو
٭ ولانا ہدایت اللہ
٭ مولانا محمد سلیم سمیجو
٭ مولانا عمرالدین سموں
٭ مولانا محمد خان ربانی
٭ مولانا کمال الدین سموں
٭ مولانا عبدالصمد راہمون
٭ مولانا امجد علی ریگستانی
معلمولات:
مولانا جلال الدین ، پیر طریقت حضرت مولانا محمد اسحاق علیہ الرحمۃ سجادہ نشین درگاہ ملا کاتیار کے عقیدت مند تھے ان سے گھنٹوں صحبت فرماتے اور اکثر گفتگو دونوں بزرگوں کی فارسی میں ہوا کرتی تھی۔ سال میں دو تین بار درگاہ ملا کاتیار حاضری دیتے تھے ۔ اسی طرح ملتان شریف حضرت شیخ الاسلام غوث بہائوندین زکریا علیہ الرحمۃ ، بلیرا شریف اور حضرت مولانا محمد قاسم کالرو علیہ الرحمۃ کے مزارات مقدسہ پر حاضری دیا کرتے تھے۔
مولانا صاحب درود شریف کا کثرت سے ورد کیا کرتے تھے۔ درود شریف کا خاص اہتمام فرماتے اور لوگوں کو درود شریف کی کثرت سے تلاوت کیلئے تیار کرتے ھتے۔ آپ نے گھر میں ’’محفل درود شریف‘‘ کا خاص اہتمام فرمایاکر تھر میں درود شریف کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا۔ رازانہ بعد نماز فجر اور بعد نماز معہ کپڑے بچھائے جاتے اور چیلیوں پر درود شریف پڑھا جاتا ۔ اس کے بعد نعت خوانی ہوتی۔ رمضان شریف میں بعد نماز تراویح درود شریف کا اہتمام ہوتا اور دلائل الخیرات کا بھی ورد روزانہ جاری رکھتے تھے چاہے سفر ہو یا حضرت عمل برابر جاری رہتا۔
صور ت و سیرت:
حسین صورت ، سفید ریش، سر پر عمامہ ، کرتہ اور تہبند ہاتھ میں عصا، نشست و برخاست سنت نبوی کے مطابق بلکہ سنت نبوی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے، سادگی کے پیکر اور اخلاق و محبت کے مجسمہ تھے۔ سخی، مہمان نواز، متقی، پرہیزگار، شب خیز، آل رسول کے شیدائی، محب صحابہ کرام ، صابر ، شاکر اور غریبوں کے ہمدرد و ساتھی، مصبیت زدوں کا مددگار تھے۔
مسجد کاقیام:
آپ نے کئی مساجد و مدارس کی بنیاد رکھی۔ ایک بار خود بتایا کہ انہوں نے میر پور خاص ریلوے پلیٹ فارم پر مسجد شریف کی بنیاد رکھی ۔ جو کہ آج بھی اذان و صلوٰۃ ، ذکر و فکر سے آباد و شاد اور آپ کیلئے صدقہ جاریہ ہے۔
سماجی خدمات:
آپ نے عوام الناس کی سہولیات کو مد نظر رکھ کر دھا کلو مین اسکول، ہسپتال، ٹیوب ویل اور کنویں قائم کروائے۔ جہاں سے مسلمان بلا امتیاز فائدہ اٹھا رہے ہیں اور فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
وصال:
حضرت مولانا جلال الدین سنگراسی نے ۲۰ ، ذوالحجہ ۱۴۱۷ھ بمطابق ۲۸ اپریل ۱۹۹۷ء شب پیر ایک بجے ۷۱ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ دھا کلو میں آپ کا مزار مرجع خلائق ہے اور ہر سال عرس مبارک نہایت عقیدت سے منعقد ہوتا ہے (ماخوذ : دیالعل لذی مطبوعہ دھاکلو ضلع تھر پارکر)
صحرائے تھر کے اکابر علمائے اہل سنت:
دیا لعل لذی کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ تھر میں اہل سنت و جماعت کی نامور علمی شخصیات گزری ہیں۔ ان کی قد آور شخصیات پر مشتمل کتاب یا کم از کم مفصل مضامین تحریر کرنے چاہئیں ۔ مواد کی عدم دستیابی کی صورت میں یہاں ان کے اسماء گرامی پر اکتفا کرتے ہیں اور دارالعلوم غوثیہ کے فضلاء سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ ان شخصیات پر ضرور کام کریں۔
٭ مفتی اعظم تھر حضرت علامہ عبداللہ اکبری ولہاری قدس سرہ کھنبھر و شریف نزد دھورونارو ضلع عمر کوٹ
٭ استاد الکل حضرت علامہ محمد عثمان قِرانی مجددی قدس سرہ
٭ حضرت علامہ مفتی عدالحق چانڈیو مدرسہ راوتسر
٭ حضرت مولانا مفتی عبدالہادی چانڈیو راوتسر
٭ حضرت مولانا محمد اسماعیل دل بسارنی شریف تحصیل نگر پارکر
٭ حضرت مولانا غوث محمد بھرگڑی شاگر علامہ قرانی
٭ حضرت مولانا مردی علی ہالیپوتہ شاگر علاہ قرانی
٭ حضرت مولان احبیب اللہ سموں آستانہ تامیلھار راجستھان
٭ حضرت مولانا ولی محمد راہموں گوٹھ گھاگھڑو اسٹیشن ضلع باہر میر
٭ حضرت مولانا احمد دل بن حضرت مولانا محمد اسماعیل بسرانی شریف
٭ حضرت مولانا محمد سلیمان منگریو گوٹھ نیباڑی
٭ حضرت مولانا محدم عالم چانڈیو راوتسر
٭ حضرت مولانا عبدالواحد دل شاگر علامہ قرانی
٭ حضرت حافظ محمد اسحاق جیتراڑ شاگر علامہ قرانی
٭ حضرت مولانا محمد حسن گلال شاگر علامہ قرانی
٭ حضرت مولانا محمد علی جونیجو شاگر علامہ قرانی
٭ حضرت مولانا محمد صالح درس
٭ حضرت مولانا علامہ محمد امین گاہر ساند جانپاریو
٭ حضرت مولانا علامہ محمد امین گوہر ساند گوٹھ ساھو ساند تحصیل نگر پارکر
٭ حضرت مولانا علامہ عبدالحق ساند المعروف مولوی سانوئی
٭ حضرت مولانا علامہ عبدالحق ساند المعروف مولوی سانوئی
٭ حضرت مولانا حامد اللہ ساند بہ شریف تحصیل نگر پارکر ضلع تھر پارکر
٭ حضرت مولانا محمد عالم جونیجو
٭ حضرت مولانامحمد دائود جنجھی
٭ حضرت مولانا عبدالمجید سموں ساکن کوٹھاریہ
٭ حضرت مولانا عبدالمجید نقشبندی صدر مدس دارالعلوم صوفیہ حنفیہ گوٹھ واگھی جو دیرو تحصیل نگر پارکر
٭ مولانا عبدالرشید بن مولانا حاجی تاج محمد ساندگوٹھ پھٹاریہ تحصیل نگر پارکر
٭ مولانا محمد عالم ساکن مٹھڑیہ
٭ مولانا محمد امین چانڈیو ساکن ٹالھی ضلع عمر کوٹ
٭ مولانا حاجی عبدالغفور ساکن کنری ضلع عمر کوٹ
٭ مولانا الحاج محمود وھنج
٭ مولانا حافظ عبداللطیف گوٹھ وینجھنیاری تحصیل مٹھی تھر پارکر
نوٹ:
ان حضرات سے متعلق اگر مواد میسر ہو تو تیسری جلد میں لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ ان حضرات کے متوسلین اور دیگر علاقوں میں علماء کے عزیز و اقارب اپنی دینی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے علماء اہل سنت کے حالات قلمبند کرکے انہیں زندہ رکھیں ہر دور کیلئے۔ (راشدی)
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)