آپ حضرت چراغ دہلوی کے خلیفہ اعظم تھے۔ تجرید و تفرید میں یکتائے زمانہ تھے۔ آپ نے اپنے احوال و مقامات پر لکھا ہے اس کے پڑھنے سے عقل حیران رہ جاتی ہے وہ اپنے وقت کے کاملین میں سے تھے۔ آپ کی ایک تصنیف بحر المعانی ہے جس میں توحید کے حقائق اور معرفت کے اسرار تحریر ہیں۔ اس میں مستانہ انکشافات کیے گئے ہیں اس کتاب کے علاوہ آپ کی دو کتابیں دقائق المعانی اور حقائق المعانی بھی اہل معرفت میں بڑی مقبول ہوئی تھیں اسرار روح پر ایک رسالہ ہے، پنج نکات اور بحر الانساب دو ایسے رسالے ہیں جن میں اہل بیت رسول کے فضائل اور کمالات بیان کیے گئے ہیں اور اپنے آباو اجداد کی نسبت کو بیان کیا گیا ہے آپ بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن جب ہم ان دعووں کو غور سے دیکھتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ وہ حق پر مبنی ہیں۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے بڑی لمبی عمر بخشی تھی خاندان تغلق سے لے کر سلطان بہلول لودھی تک زندہ رہے۔ آپ کی عمر دو سو سال تھی۔ آپ کے آباو اجداد کا تعلق مکہ مکرمہ سے تھا۔ ہندوستان آئے تو سرہند میں قیام کیا، آپ کا مزار سرہند شریف میں ہی ہے۔
اپنی کتاب بحر المعانی میں لکھتے ہیں کہ ساٹھ سال تک ظاہری علوم حاصل کرتا رہا معرفت و طریقت سے بے خبر رہا اگرچہ میں نے ظاہری علوم میں بڑا کمال حاصل کیا مگر باطنی اسرار سے بے خبر تھا۔ اب میں وہ چیزیں دیکھتا ہوں جو عام نظروں سے غائب ہیں اور وہ باتیں سنتا ہوں جنہیں تمام کان نہیں سن سکتے۔ آپ اس کتاب میں قطبوں، ولیوں، اوتاد۔ افراد اور رجال الغیب کے حالات لکھتے ہیں۔ ان حضرات کے مقامات و مراتب کو ایسے انداز میں بیان کیا ہے کہ اس سے بڑھ کر تصوّر نہیں کیا جاسکتا۔ آپ نے فرمایا ہے کہ میں ان تمام حضرات سے ملا ہوں استفادہ کیا ہے اور ان کے مقامات و مراتب سے آگاہ ہوا ہوں پھر لکھتے ہیں تین سو پچاس ابدال ایسے ہیں جو دریائے نیل کے منبع پر پہاڑوں میں رہتے ہیں۔ میں ان کے پاس حاضر ہوا اور ان سے ملاقات کی تھی۔ وہ خاموش پہاڑوں میں خاموشی سے رہتے ہیں۔ درختوں کے پتے کھا کر جیتے ہیں کبھی کبھی ملخ بیا بانی کھالیتے ہیں۔ ان کے علاوہ افراد لاتعداد ہیں۔ میں اکثر ان سے بھی ملا ہوں وہ عام لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں مگر قطب وقت انہیں دیکھتا رہتا ہے۔ ان تمام حضرات مقدسہ میں سے دو اوتاد ایسے ہیں جو مقام معشوقیت تک پہنچے ہیں وہ اس مقام پر ہیں۔ کہ اس مقام پر کسی دوسرے کی رسائی نہیں ہے۔ ان میں ایک تو شیخ سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ ہیں اور دوسرے خواجہ نظام الدین اولیاء اللہ بدایونی رحمۃ اللہ علیہ ہیں روحانی طور پر دونوں روح احمدی کا مظہر ہیں میں ایک دن دریائے نیل میں ایک کشتی پر بیٹھا تھا۔ میرے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام بھی سیر کر رہے تھے ہم مشاہدہ لایذ الی پرگفتگو کر رہے تھے مجھے حضرت خضر علیہ السلام نے بتایا کہ اس کائنات میں سید عبدالقادر جیلانی اور خواجہ نظام الدین اولیا دو ایسے بزرگ ہیں جو مقام معشوق اور محبوبی پر فائز ہیں۔
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ میں نوے سال صحو میں رہا اور اکیس سال سکر کی حالت میں رہا ان ایّام میں مجھے ماسوی اللہ سے کسی چیز کی خبر نہ تھی میں ایک عرصہ تک جوار یعقوب اور یمنی میں رہا ہوں انہوں نے میرے مقام صحو اور سکر کا ذکر کیا ہے۔ میں اکیس سال سکر میں رہا مگر اب میں چند سال سے مستی سے فرد انیت کے مقام پر آگیا ہوں۔
فریدم فرد نبشتم کہ در خود
ز فردیت بے انوار دارم
اگر موسیٰ نیم موسیچہ ہستم
داون سینہ موسیقار دارم
جب فرد حقیقت سے ترقی کے کے حضرت شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی آگے بڑھے تو میں ان کی راہنمائی میں تجلی صفات سے تجلی ذات کے مقام فردانیت میں آیا۔ تو میں نے فرد حقیقت کو خواب میں دیکھا جو ذکر خفی کر رہے تھے میں نے ان کی خدمت میں حاضر ہوکر خاک آستان کو اپنے چہرے پر ملنے کی سعادت حاصل کی تو فرمانے لگے ’’اے شہباز میدان لاہوت اور اے پاک باز عالم جبروت اور اے بازیافتہ عالم ملکوت و ناسوت‘‘ یہ کہہ کر آپ نے میری آنکھوں میں ایک سلائی سے سرمہ ڈالا اور فرمایا یہ سر جلال جمال ذات کا ہے یہ واقعہ ۸۱۱ھ میں پیش آیا تھا۔ رات ہوئی تو میں نے وہاں سے پرواز بھری اور اختلان سے مصر پہنچا اور شیخ اوحد سمنانی قدس سرہ کی قدم بوسی کی۔ اس وقت آپ قطب عالم کے منصب پر فائز تھے۔ آپ نے بھی مجھے انہی الفاظ اور انعمات سے نوازا جسے فرد حقیقت نے نوازا تھا۔ آپ نے نہایت شفقت سے اپنے حجرۂ خاص میں ایک کونہ عطا فرمایا میرے علاوہ اس حجرے میں دو اور افراد بھی موجود تھے۔ ایک تو صوفی تھے اور دوسرے ایک طالب علم تھے شام کی نماز پڑھنے کے بعد میں نے وہاں سے پرواز کی اور عشاء کی نماز حضرت قطب العالم شیخ اوحد سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کے پیچھے پڑھی رات کو تین بار قرآن پاک ختم کیا اور تیرہ پارے مزید پڑھے۔ اس رات میر اقلب وسیع ہوتا گیا اور میں عرش عظیم کے کنگروں تک جا پہنچا مجھے مزید وسعت ملی تو مجھے یوں دکھائی دیا کہ عرش عظیم میری نگاہ میں ایک رائی کے دانے کی طرح ہے میں نے اپنے آپ پر نگاہ ڈالی تو میرے بدن کا رواں رواں ایک تصویر بنا ہوا ہے اور ہر تصویر میری ہم شکل ہے۔ اب یہ صورتیں مٹنا شروع ہوئیں تمام افلاک، آفاق، اماکن، عالم انفس بے کیف نظر آنے لگے۔ تمام تجلیات اسماء صفات افعال اور آثار محو ہونے لگے۔ ایک آنکھ جھمکنے میں مجھے ستر ہزار عالم نظر آنے لگے اور کلام الٰہی کو بلاواسطہ سنا۔ مجھے ایک ندا آئی۔ یا عبدی، جلالی، حجاب جمالی، انوار جلالی، وانت بین الجلال و الجمال میں تجلی ذات کے کلام سے بھی مشرف ہوا اور اس مشاہدہ کی کیفیت کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اسی دن میں نے مقام لاہوت میں نزول کیا یہ مقام فردانیت ہے۔ تجلی ذات کے بعد میں سترہ روز تک عالم صحو میں رہا اسی دوران حضرت شیخ اوحد الدین سمنانی کبھی کبھی میرے حجرے میں تشریف لایا کرتے تھے اور میری پیشانی پر بوسہ دیا کرتے تھے اگر حضرت سمنانی میرے حال کی نگرانی نہ فرماتے تو حجرے کے نگران مجھے مردہ جان کر دفن کردیتے۔
آپ نے بحر معانی میں ایک اور مقام پر لکھا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے ایک سوال کیا مگر میں ان کے سوال کا جواب نہ دیا کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ابتدائے حال میں کئی سال تک مجھے حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کی تمنا ہوئی۔ جب ملتے تو میں بعض سوالات کرتا تھا۔ وہ ان کا جواب دینا مناسب خیال نہ کرتے تھے۔ آج ان کی خواہش ہے کہ وہ سوالات کریں میں جواب دینے سے احتراز کرتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کی حفاظت کے درپے ہیں لیکن مجھے اگر ہزار جانیں بھی دی جائیں تو میں اللہ کی راہ میں قربان کرنے کو تیار ہوں مجھے تو صرف خیر الکلام کی فکر ہے میں اتنی بات کرتا ہوں جو مختصر ہو مگر نہایت ضروری ہو۔
میں لکھتے وقت بھی اجمالی طور پر الفاظ کا استعمال کرتا ہوں اگر اسرار الٰہیہ کو مفصل لکھنا شروع کروں تو مجھے تو رات کی طرح کئی اونٹ درکار ہوں گے جن پر اپنی تحریریں لاسکوں۔ میری یہ باتیں فرقان عظیم کی شرح ہیں اور یہی خیر الکلام ہے آپ نے بحر المعانی میں لکھا ہے کہ میں پورے بیس سال اپنے پیر و مرشد کی آستان پر سرنیاز جھکائے رہا ہوں۔ اس ارادت کے بعد تین کاموں میں مشغول ہوگیا ایک تو یہ کہ پانچوں وقت میں اپنے پیر و مرشد کو وضو کرانے کے لیے پانی لے کر حاضر رہتا دوسرے ان کے حجرے کا چراغ روشن رکھنا میری زمہ داری تھی۔ اگر چراغ رکھنے کی جگہ نہ ملتی تو ساری ساری رات اپنے ہاتھ اٹھائے کھڑا رہتا تیسرے اپنے پیر و مرشد کے استنجا کے لیے مٹی کے ڈھیلے تیار رکھتا تھا۔ ہر روز تازہ ڈھیلے لاتا پہلے انہیں اپنی گالوں سے لگا کر صاف کرتا۔ پھر ایک جگہ رکھا کرتا تھا۔ یہ جذبات سلطان محمد تغلق کے دور اقتدار میں سرانجام دیتا رہا ہوں۔
اس کے بعد اپنے پیر و مرشد کی اجازت سے تین سو بیاسی اولیاء اللہ کی زیارت کرنے نکلا۔ یہ اولیاء اللہ اس زمانے کے مشاہیر مشائخ تھے نام بنام قریہ بہ قریہ ملک بہ ملک ان کی خدمت میں پہنچا۔ دُور دراز سفر کیے میں نے ان حالات کو اپنی ایک اور کتاب میں سپرد قلم کیا ہے۔ میں اس سفر میں صفوان بن قصی جو عبد المناف کے بھائی تھے ملا۔ یہ بزرگ حضور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے میں انہیں ایک غار میں ملا جس دن میں نے ان کی قدم بوسی کی تو اس وقت وہ نوسو بارہ سال کے ہوچکے تھے۔ آپ نے مجھے بتایا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ نے میری درازی عمر کے لیے دعا فرمائی تھی۔ صفوان کا واقعہ آپ کی کتاب بحر المعانی میں تفصیلی طور پر موجود ہے پھر یہی واقعہ آپ کی کتاب بحر الانساب میں بھی ہے۔ اگرچہ اس واقعہ کو ہم احادیث اور سیرت کی کتابوں میں نہیں پاتے تاہم ہم نے بحر المعانی کے حوالے سے یہ واقعات درج کیے ہیں۔
بحر المعانی کے آخری حصے میں ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ میں ستائیس ماہ محرم الحرام بروز جمعرات اپنا چھتیسواں مکتوب لکھ رہا ہوں۔ میرا قلم عشق کے اسرار کے میدان میں رواں دواں ہے میرا قلم جب اس جملے پر پہنچا زُرْنی غِبًا زُدْدَ حُبًا، (مجھے کبھی کبھی ملاکرو اس سے محبت بڑھتی ہے) تو میں کانپ اٹھا سرزانو پر رکھ کر سوچنے لگا۔ بے خود ہوگیا اسی عالم بنچوری میں مجھے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ میں نے دیکھا حضور مسجد قبا میں جلوہ فرما ہیں تمام صحابہ اور اولیائے امت سے مجلس سجی ہوئی ہے سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا علی کرم اللہ وجہ میرے مرشد حضرت نصیر الدین محمود چراغ دہلوی تک تمام اولیائے امت موجود ہیں اسی اثنا میں حضور پُر نور نے فارسی زبان میں مجھے مخاطب فرمایا۔ اے میرے بیٹے تم عشق حضرت لم یزل لا یزال میں مست ہو۔ اپنی کتاب بحر المعانی ہماری خدمت میں پیش کرو۔ میں اسی وقت پینتیس مکتوبات جو مکمل کیے تھے اور یہ چھتیسواں مکتوب جو ابھی نامکمل تھا پیش کیا حضور کے دست مبارک پر لا رکھا حضور نے ان تمام مکتوبات کو نگاہ نبوبت سے ایک لمحہ میں پڑھ لیا فرمایا الحمد لللہ الذی الّہمک یَا ولدی علم الاسراد وارشرک اللہ فی زیادۃ عَلمک پھر آپ نے فرمایا حضرات بحر المعانی کا مولّف ایسا مرد ہے جس نے قرآن مجید کے معانی اور مطالب کو بحر المعانی میں جمع کیا ہے۔ اگر آج دنیا کے سارے علوم محو ہوجائیں اور ان سے ایک ورق بھی نہ رہے یہ شخص قلم اٹھا کر ان تمام علوم کو از سر نو تحریر کر سکتا ہے۔
آپ نے مجھے حکم دیا۔ بیٹا! اس کے بعد علوم اسرار الہٰیہ کو صحرا میں نہ بکھیرا کرو۔ اس سے امور شریف کو نقصان پہنچتا ہے۔ میں نے قدم بوسی کرکے آپ کے فرمان کو قبول کیا اور اس مکتوب سے آگے ایک حرف بھی نہ لکھا حضور نے میری کتاب بحر المعانی کو حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ہاتھ میں دے دیا۔ آپ نے نگاۂ ولایت سے پڑھ کر حضرت خواجہ حسن بصری کو پکڑا دی آپ نے خواجہ عبدالواحد بن زید کو دے دی اس طرح تمام مشائخ سلسلہ سے ہوتی ہوئی خواجہ شیخ نصیر محمود چراغ دہلی کو دے دی گئی۔
حضرت سید محمد الحسینی ۸۹۱ھ میں فوت ہوئے یہ وفات سلطان بہلول لودھی کی وفات سے ایک سال قبل ہوئی تھی۔ سلسلہ چشتیہ میں آپ جیسا طویل العمر کوئی بزرگ نہیں ہوا۔
چوں محمد ابن جعفر مرد دیں
گشت از دنیا بجنت جائے گیر
گفت سرور پیر کامل متقی
۸۹۱ھ
سال وصلش آں شہ برناد پیر