شیخ الحدیث مرکز اہلسنت منظر اسلام بریلی شریف
نانپارہ ضلع بہرائچ شریف کا ایک مشہور قصبہ ہے جو نیپال کی تائی سے متصل ایک چھوٹی سی اسٹیٹ کی شکل میں جاناپہچانا جاتا ہے۔ اسٹیٹ کے زمانے میں یہ قصبہ ارباب علم ودانش کی آماجگاہ اور مسکن بنارہا ہے۔ آج بھی بحمدہٖ تعالیٰ اس قصبہ اور اس کے مضافات علماء وحفاظ، قراء اور شعراء سے آباد ہے۔ نانپارہ ایک زمانے میں نوابوں کا دارالسلطنت رہ چکا ہے۔ نانپارہ کے نواب کی فرمائش پر امام احمد رضا قادری بریلوی نے ایک نعت پاک تحریر فرمائی۔ مقطع میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی ارشاد فرماتے ہیں؎
کروں مدح اہلِ دوَل رضاؔ پڑے اس بلا میں مری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا میرا دین پارہ ناں نہیں
ولادت
اسی قصبہ نانپارہ کی سر زمین پر فخر المحدثین علامہ مولانا الحاج الشاہ سید محمد عارف رضوی ۷؍مارچ ۱۹۸۳ء کو پیدا ہوئے اور وہیں اپنے والدین کے سایۂ عاطفت میں پرورش پائی۔
خاندانی حالات
شیخ الحدیث مولانا سید محمد عارف رضوی کے آبائی شجرے کے چند اسماء اس طرح ہیں سید اعجاز عرف سید محمد عارف بن سید ارشاد علی بن سید علی بن سید مخدوم علی، بن سید حیات علی۔
سید حیات علی اور ان کے صاحبزادے سید بشارت علی، اور ان کے صاحبزادے شہر بہرائچ کے ساکن تھے۔ آپ کے دادا سید علی اپنے بھائیوں کے ساتھ نانپارہ چلے آئے ۔ اور یہاں اس دور کے مشہور و معروف شخصیت بزرگ حضرت مولانا سید عبداللہ بہرائچی کی دختر سے عقد مسنون ہوا۔ ان سے چار بیٹے اور چار بیٹیاں ہوئیں۔ سب سے بڑے ارشاد علی، پھر سید ممتاز علی پھر سید مشتاق علی، اور چھوٹے صاحبزادے سید رضی الدین ہو۔ سید ارشاد علی، سید رضی الدین حیات ہیں اور باقی انتقال کر گئے۔
مولانا سید محمد عارف کے ننہال کا شجرہ اس طرح ہے۔ والدہ مرحومہ بنت حافظ سید نثار حسین بن حافظ سید علی حسین بن حافظ سید محمد حسین بن حافظ سید احمد علی عرف حافظ بساوئی۔ آپ کی خاندانی روایات یہ ہیں:۔ کہ نانپارہ انہیں کے جدِ اعلیٰ نے بسایا، یہ ایک صاحب کرامت بزرگ تھے۔ جنکی ایک نسل میں حافظ ہی ہوتے رہے۔ سنتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں پر بہت سے لوگ مشرف باسلامہوئے۔ ح افظ سید احمد علی کی ایک خادمہ جس کی عرفیت چن تھ ی۔ مشرف باسلام ہوکر آپ ہی کی خدمت کرتی رہی اور انتقال کے بعد مکان کےمتصل ہی دفن ہوئے۔ جب کبھی رات میں کوئی بچہ روتا تو حضرت حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی آواز قبر سے سنائی دیتی کہ:
‘‘چن یہ کون بچہ رورہا ہے چپاؤ مجھے تکلیف ہوتی ہے۔’’
تعلیم وتربیت
مولانا سید محمد عارف کی تعلیم وتربیت ان کے والدین کریمین نے کرائی، ابتداءً گھر ہی پر پڑھائی کا انتظام کیا گیا۔ ایک ماسٹر اور ایک مولانا صاحب بہت دنوں تک گھر پر ہی پڑھاتے رہے، بعد میں باقاعدہ انجمن اسلامیہ نانپارہ کے پرائمری شعبہ میں داخہ کرایا گیا۔ پھر کچھ دنوں کے بعد پرائمری اسکول نانپارہ میں داخلہ کرادیا گیا۔ اس اسکول کے ہیڈ ماسٹر مولوی امیر احمد مرحوم بچوں پر بڑے ہی مشفق، مختی مشہور تھے۔ ان کے سایۂ تربیت میں پرائمری درجات کی تعلیم کے بعد انجمن حنفیہ نانپارہ کے صدر مدرس مولانا سبحان اللہ انصاری امجدی کے حوالے والدین نے مولانا سید محمد عارف کو کردیا۔
مولانا سبحان اللہ! امجدی کی عنایتوں کے سایہ میں آمد نامہ، وبستاں، وغیرہ فارسی کی کتابیں پڑھیں۔ لیکن مولانا سبحان اللہ انجمن حنفیہ سے ترک ملازمت فرماکر اپنے وطن مالوف بستی تشریف لے گئے۔ چند ہی دنوں بعد مولانا قاری علی ح سین رضوی نعیمی بستوی نانپارہ تشریف لائے۔ موصوف اس وقت جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں مدرس تھے، مولانا سید محمد عارف کے والدین کی گذارش پر انہوں نے جامعہ نعیمیہ مراد آباد بھیجنے کے لیے منظور کرلیا۔
حضرت مولانا سید محمد عارف رضوی اس طرح ۱۹۵۶ء کو جامع نعیمیہ مراد اباد پہنچ گئے۔ مولانا قاضی محمد حسین نعیمی سنبھلی سے فارسی اور حدیث پاک مولانا طریق اللہ رضوی نعیمی شیخ الحدیث جامعہ نعیمیہ سےپڑھیں۔ ۱۹۵۷ء تک جامعہ نعیمیہ قاری علی حسین رضوی نعیمی سے مشق قرأت اور عربی، فارسی کی اعلیٰ کتابوں کا درس لیا۔ اسی اثناء میں قاری علی حسین جامعہ نعیمیہ کی ملازمت سے سبکدوش ہوکر شہر بستی کے ایک مدرسہ معین الاسلام تشریف لے گ ئے۔ انہی کے ساتھ علامہ سید محمد عارف بھی بستی پہنچ گئے۔ چونکہ آپ کو اپنے شفیق اُستاد کی شفقتوں سے دور رہنا پسند ن ہ تھا اور وہاں جاکر شرح مایہ عامل وغیرہ کتابوں کی تعلیم حاصل کی۔
شعبان المعظم میں جب مولانا سید محمد عارف چھٹیاں گزارنے اپنے وطن نانپارہ پہنچے تو خوبی قسمت مفسر اعظم ہند محمد ابراہیم رضا جیلانی بریلوی کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ آپ کی نیاز مندانہ طبیعت نے مفسر اعظم ہند علیہ الرحمہ کو خود مائل بہ کرم پایا، اور بعض بزرگوں کی سفارش پر مفسر اعظم ہند نے بریلی منظر اسلام میں داخہ منظور فرمالیا۔ اور شوال المکرم میں مولانا سید محمد عارف منظر اسلام میں حاضر ہوگئے۔ چند ہی دنوں بعد جب مفسر اعظم نے آپ کی مشغولیت کو دیکھا تو مفسر اعظم ہند کی توجہ خصوصی تعلیم کی جانب مائل ہوگئی، اور تعلیم کی انتھک محنت نے اعلیٰ نمبروں میں کامیابی عطا کی۔
فراغت
حضرت مولانا سید محمد عارف نانپاروی کی فراغت اور تکمیل علوم و فنون ۱۹۶۵ء؍ یا۱۹۶۴ء میں دارالعلوم منظر اسلام بریلی سے ہوئی اور جید علماء ومشائخ نے آپ نے مقدس ہاتھوں سے آپکی دستار باندھی۔
اساتذۂ کرام
۱۔ مولانا سید محمد عرف کے اساتذہ میں مندرجہ ذل شخصیات قابلِ ذکر ہیں:
۲۔ مفسر اعظم ہند مولانا محمد ابراہیم رضا جیلانی بریلوی
۳۔ محدث منظر اسلام مولانا احسان علی رضوی مظفر پوری
۴۔ استاذ الاساتذۃمفتی جہانگیر خاں رضوی فتح پوری
۵۔ ریحان ملت مولانا الشاہ محمد ریحان رضا رحمانی بریلولی
۶۔ حضرت مولانا مفتی غلام مجتبیٰ اشرف اشرفی کچھوچھوی
۷۔ حضرت مولانا بلال احمد رضوی بہاری
آغازِ درس وتدریس
حضرت مولانا سید محمد عارف کی قابلیت وصلاحیت زمانۂ طالب علمی سے ظاہر وباہر تھی آپ دارالعلوم منظر اسلام کے ان قابل فخر فرزندوں میں ہیں۔ جنہوں نے درس حدیث کے ذریعہ ایک جہاں کو فیضیاب کیا۔ مفسر اعظم ہند نے فراغت کے بعد مولانا کو دارالعلوم منظر اسلام میں خدمت درس وتدریس کےلیے منتخب فرمایا۔ اس وقت سے تاہنوز (باستشنائے ۱۹۷۲ء نعایتہ ۱۹۴۷ء) منظر اسلام میں خدمت تدریس انجام دے رہے ہیں۔ مذکورہ تین برسوں میں مدرسہ فخر العلوم بلرام پور ضلع گونڈہ اور دارالعلوم شاہ عالم احمد آباد گجرات میں بھی درس حدیث کا فیضان جاری رکھا۔
بیعت وخلافت
علامہ مولانا سید محمد عارف رضوی ۱۰؍جمادی الاولیٰ ۱۳۸۱ھ میں حضور مفتی اعظم کے دست حق پرست پر شرف بیعت مالامال ہوئے۔ اور ۱۵؍جمادی الاولیٰ ۱۳۹۵ھ میں مفتی اعظم مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ نے چاروں سلاسل کی اجازت مرحمت فرمائی۔
مفتئ اعظم کےمتعلق
شیخ الحدیث مولانا سید محمد عارف رضوی نانپاروی مشرد برحق مفتی اعظم قدس سرہٗ کے متعلق یوں حقیقت بیانی فرماتے ہیں:
‘‘جن آنکھوں نے حضور مفتی اعظم کو دیکھا وہ گواہ ہیں کہ حضرت کی ہر ہر ادا سب سے زیادہ اچھی تھی۔ آپ کا علم، عمل، تقوی، فتوی، اور زہد وورع یہ ساری خوبیاں اپنی نظیر تھیں۔ چہرے پر جلال اور چال ڈھال سے جمالِ غوثیت نمایاں ہوتی تھی، اتباع سنت کا یہ حال کہ علماء آپ کے عمل سے کسی حدیث کو راحج ہونے کا یقین کرلیتے۔ لیکن سب سے بڑی چیز جس کی مثال اس دور میں دیکھنے میں نہ آئی وہ یہ تھی کہ نہایت ہی کم سخن زندگی، نہ جلسوں، وعثوں میں تقریر فرمائیں۔ نہ مجلسوں میں تربیت حاضرین کےلیے حاضرین پر الفاظ کی بارش فرمایں۔ ار حال یہ کہ جو اس کا عقیدت کیش ہوجائے۔ اسے اپنی نگاہوں سے کچھ ایسا نوازیں کہ اس کے دل میں ایمان کی شمع جگمگا اُٹھے۔ ح ضور مفتی اعظم نور اللہ مرقدہٗ نے ۱۹۴۷ء کا خوف و حراص بھرا ماحول دیکھا۔ لیکن خوف زدہ نہ ہوئے۔ افسوس ہندوستان نے آزادی کا پرچم لہرایا۔ ابن الوقتوں نے مسلم نمائندگی کے بہانےسیاست میں آکر دیگر مذہبی امور کےانتظام وانصرام کی باگ ڈور سنبھالی اور اس طرح بڑے عہدوں پر فائز ہوکر مسلمانوں کی کوئی خدمت نہ کرسکے۔ لیکن اپنے باطل مذہب اور باطل نظریات کی اشاعت کا موقع انہیں ضرور ملا۔ حکومت کی بڑی بڑی مراعات اشاعت وہابیہ کے لیے وقف ہوئیں۔ ہر طرف وہابی علماء میں چرچا ہونےلگا اور جاہ وعزت سے دلچسپی لینے والے دیندار ان علماء کی جانب مائل ہوئے۔ حضور مفتئ اعطم اس انقلاب سے بھی متاثر نہ ہوئے نہ مایوس ہوئے۔ صرف اور صرف اپنی انہی خاموش اداؤں کے ذریعے آپ نے علماء اہل سنت کو خود سے قریب کیا اور دیکھتے دیکھتے ایک ایسا انقلاب پیدا کردیا۔ الحمدللہ سنیت غالب آئی اور جب وہ دنیا سے تشریف لے گئے تو کروڑوں حساس دلوں کو اپنا مداح اور ہم نوابنا کر روتا ہوا چھوڑ گئے۔
حج وزیارت
شیخ الحدیث مولانا سید محمد عارف نے ۱۹۸۸ء میں زیارت حرمین طیبین کا شرف حاصل کیا۔ علماء عرب وعجم سے ملاقاتیں کیں۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے علماءنے آپ کو عزت ووقعت کی نظروں سےدیکھا چونکہ آپایک ایسے مرکز کے شیخ الحدیث ہیں جس نے عالم اسلام میں دین و ایمان کی شمع جلا رکھی ہے۔
عقد مسنون
۱۹۲۲ء میں مولانا قاضی احسان الحق نعیمی مفتی بہرائچ علیہ الرحمہ کی دختر نیک اختر کے ساتھ مولانا سید محمد عارف کی از دواجی زندگی کا آغاز ہوا۔ ان سےچار لڑکے:
۱۔ سید ظفر سجائی نوری
۲۔ مولوی سید محمد میاں رضوی
۳۔ سید شاہ عالم رضوی
۴۔ سید معین الدین
اور تین لڑکیاں حیات ہیں ۱۹۸۰ء میں وہ داغ مفارقت دے گئیں۔ تو انکی بہن مولانا سید محمد عارف کی زوجیت میں آئیں جو ہنوز باحیات ہیں اور ان سے بھی دو بچےتولد ہوئے۔
۵۔ سید مسعود الزماں
۶۔ سید زہران علی
نمونۂ کلام
حضرت مولانا سید محمد عارف نےمستقل کوئی کتاب اب تک نہیں لکھی۔ آپ کی گو ناگوں مصروفیات اتنی کثیر ہیں کہ تصنیف و تالیف کی طرف متوجہ نہ ہوسکے۔ البتہ کبھی کبھی کچھ مضامین ماہنامہ اعلیٰحضرت اور ماہنامہ نوری کرن بریلی میں ضرور اشاعت پذیر ہوئے۔ مثلاً ہمیت زکوٰۃ بتحریک سودویت وغیرہ وغیرہ
شیخ الحدیث مولانا سید محمد عارف رضوی شعر وشاعری سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ دل کہ بہلانے کے لیے کچھ اشعار کی آمد ضرور ہوتی ہے۔ جب آپ دارالعلوم شاہ عالم احمد آباد میں مسند تدریس پر فائز تے تو وہاں عرس رضوی احمد آباد کے معوق پر ایک منقبت امام احمد رضا قادری بریلوی کی جناب میں لکھی۔ جس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
نظرِ کرم ادھر بھی اے ساقئ زمانہ
بھر کر مجھے پلادے ایک جام عارفانہ
اچھے میاں کے اچھے غوث الوریٰ کے پیارے
بغداد کی پلادے مشتاق ہے زمانہ
دیکھا ترے گدا کو تو کہہ اُٹھا یہ نجدی
وہ شیر ہے رضا کا دیکھو ادھر نہ جانہ
میرے رضا کا در کا جس کو ملا ہے صدقہ
اوج فلک ہے اُسکی عظمت کا آستانہ
عارف سگ رضا ہے اور عبد مصطفیٰ ہے
جانانہ پاس اس کے اے گردش زمانہ
مولانا سید محمد عارف کا اصلی نام سید اعجاز علی ہے اور عرف سید محمد عارف تخلص عارف ہے۔ دنیائے سنیت میں آپ کی شخصیت سید محمد عارف کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے۔
چند تلامذہ وخلفاء
شیخ الحدیث علامہ سید محمد عارف رضوی کے درجۂ حدیث میں شامل ہونے والے طلبہ کی تعداد بہت زیاد ہے۔ منظر اسلام میں ہر سال تقریباً دو تین سو کی تعداد میں علما وفضلاء فارغ التحصیل ہوتے ہیں، اور سبھی فضلاء آپ کے درس حدیث کی سماعت میں حصہ لیکر بہرہ ور ہوئے ہیں۔ تاہم چند تلامذہ کے سماء یہ ہیں۔
۱۔ مولانا مفتی سید شاہد علی رضوی ناظم اعلیٰ الجامعۃ الاسلامیہ گنج قدیم رام پور
۲۔ علامہ مولانا محمد انور علی رضوی بہرائچی شیخ الادب منظر اسلام بریلی شریف
۳۔ مولانا تطہیر احمد رضوی بریلوی مدرس الجامعۃ القادریہ رچھابہیڑی
۴۔ مولانا شعیب احمد رضوی مظفر پوری
۵۔ مولانا قاری نجب علی القادری نائب شیخ الحدیث الجامعۃ الاسلامیہ رام پور
۶۔ مولانا محمد فاروق رضا رجوی ناظم تعلیمات الجامعۃ الاسلامیہ رام پور
۷۔ مولانا حافظ شکیل احمد رضوی مدرسا الجامعۃ الاسلامیہ رام پور
۸۔ مولانا منظر قدیری پور نوی
۹۔ مولانا محمد میاں رضوی نانپاروی صاحبزادہ
۱۰۔ مولانا اعجاز انجم رضوی لطیفی مدیر اعزازی ماہنامہ اعلیٰحضرت
۱۱۔ مولانا محمد بشیر الدین رضوی دیناج پور بنگال
(نوٹ) مذکورہ حالات و کوائف راقم نے بالشافہ حاصل کیے۔ مورخہ رجب ۱۴۱۰ھ۔ ۱۲رضوی غفرلہٗ