اظہار
اشرف اشرفی جیلانی، مخدوم العلما شیخِ اعظم حضرت علامہ سیّد
شاہ
مخدوم العلما شیخِ اعظم حضرت
علامہ سیّد شاہ اظہار اشرف اشرفی جیلانی
نام: اظہار اشرف (آپ کے نانا عارف باللہ حضرت سیّد مصطفی
ٰاشرف نے آپ کا نام ’’مسعود‘‘رکھا تھا، لیکن آپ اپنے
پردادا و نانا اَعلیٰ حضرت سیّد شاہ علی حسین اشرفی المعروف بَہ ’’اشرفی میاں‘‘ کے رکھے
ہوئے نام ’’اظہار اشرف‘‘ سے مشہور ہوئے۔
کنیت : ابو
المحمود
اَلقاب: شیخِ اعظم، مخدوم العلما
نسب: آپ نسباً ’’سیّد‘‘ ہیں، آپ کا تعلّق ساداتِ جیلانی سے ہے۔
شجرۂ نسب:
سیّد
اظہار اشرف بن سیّد مختار اشرف بن سید احمد اشرف بن سید علی حسین اشرفی بن سید سعادت علی بن سید قلندر بخش بن سید تراب
علی بن سید محمد نواز بن سید محمد غوث بن
سید جمال الدین بن سید عزیزالرحمٰن بن سید محمد عثمان بن سید ابو الفتح بن سید
محمد بن سید محمد اشرف بن سید شاہ حسن بن سید عبدالرزاق نور العین بن سیّد
عبدالغفور حسن بن سید ابوالعباس احمد بن
سید بدرالدین حسن بن سید علاء الدین علی بن سید شمس الدین محمد بن سید سیف الدین
یحییٰ بن سید ظہیرالدین احمد بن سید ابو نصر محمدبن سید ابو صالح ناصر بن سید ابو بکر عبدالرزاق بن سیّد عبدالقادر
جیلانی بن سید ابو صالح موسیٰ بن اسید ابو عبداللہ بن سید یحییٰ زاہد بن سید محمد
شمس الدین بن سید ابو بکر داؤد بن سید موسیٰ ثانی بن سید عبداللہ بن سید موسیٰ
الجون بن سید عبداللہ محض بن سیّد حسن مثنی
بن سیدنا امام حسن بن سیدہ فاطمہ الزہراء بنتِ اشرف الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ ۔
تاریخِ ولادت: 6؍محرم
الحرام 1355ھ مطابق 2؍ مارچ 1936ء۔
مقامِ ولادت:
کچھوچھۂ مقدّسہ، ہندوستان ۔
حلیہ:
رنگ گورا ، لمبا قد ، گول چہرہ، چوڑی پیشانی، کھڑی ناک، گھنی
داڑھی، بڑی بڑی سرمگیں آنکھیں، نہایت خوب صورت چہرہ اور لحیم و شحیم جسم کے باوجود
چست ومستعد۔
تسمیہ خوانی:
چار سال چار ماہ چار دن کی عمر میں والدِ گرامی حضرت مخدوم
المشائخ سرکار کلاں نانا عارف باللہ حضرت سیّد مصطفی ٰاشرف اور پھوپھا حضرت سیّد
محمد محدثِ اعظم ہند کی موجودگی میں بسم
اللہ خوانی ہوئی، اس موقع پر حضرت محدثِ اعظم ہند نے یہ اَشعار کہے:
دولت احمد مختار باظہار آمد
مرحبا فضل کریمانہ مبارک باشد
اکنوں بسم اللہ طفلاناں مبارک باشد
آخرش طرۂ مولانا مبارک باشد
تعلیم:
ابتدائی تعلیم درجۂ پنجم تک جامع اشرف کچھوچھہ شریف میں حاصل
کی، اعلیٰ تعلیم کے لیےالجا معۃ الاشرفیہ مبارک پور میں داخلہ لے کر 1957ء میں
فراغت حاصل کی۔
اَساتذۂ
کرام:
·
حضرت مفتی حبیب اللہ اشرفی نعیمی
·
حضرت مولانا یونس نعیمی اشرفی
·
حضرت مولانا سلیمان اشرفی
·
حافظِ ملّت حضرت مولانا عبدالعزیز محدث
مراد آبادی
·
حضرت مولانا عبدالرؤف ( مبارک پور)
·
حضرت علامہ ظفر ا دیبی مبارک پوری وغیرہم۔
تدریسی
خدمات:
الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور میں معین المدرسین کی حیثیت سے
درس دیا، اس کے بعد جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں تقریباً ساڑھے تین سال اعزازی
تدریسی خدمات انجام دیں، اس کے بعد والدِ گرامی حضرت سرکارِ کلاں کے مشاغل
وخانقاہ کی تعمیر وترقی میں لگ گئے۔
شادی:
آپ کا نکاح سیّدہ نزہت فاطمہ بنتِ سیّد فصاحت حسین اشرفی
جیلانی سے ہوا، جن سے ایک صاحبزادی سیّدہ زبیدہ 24؍اپریل 1961ء کو پیدا ہوئیں؛
علاوہ ازیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹے بھی عطا فرمائے:
1. قائدِ ملّت سیّد محمود اشرف
(جانشیں) ولادت 7؍ جولائی 1964 ، ان کی تعلیم جامع اشرف درگاہ کچھوچھہ شریف میں
ہوئی۔ فراغت کے بعد کچھ دن درس وتدریس کی
خدمت انجام دی اور اب رشدوہدایت وتبلیغِ دین میں مصروف ہیں؛ نیز، جامعہ اشرف کے ناظمِ اعلیٰ اور آل انڈیا علما ومشائخ
بورڈ کے صدر ہیں۔
2. سیّد محمد اشرف، ان کی تعلیم علی گڑھ اور جامعہ اشرف میں ہوئی۔
تعلیم کے بعد وعظ وارشاد کے ساتھ کُل ہند علما و مشائخ بورڈ کے جنرل سکریٹری کے
فرائض انجام دے رہےہیں۔
3. سیّد حماد اشرف، ان کی
تعلیم علی گڑھ میں ہوئی اور سمنان پریس کے ڈائریکٹر ہیں نیز لکھنؤ میں مسلکِ اہلِ سنّت وجماعت کی نشرواشاعت میں نمایاں
کردار ادا کر رہے ہیں۔
حج
بیت اللہ :
سب سے پہلی مرتبہ 1967ءمیں حرمین شریفین کا سفر کیا اور حجِ بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ وہاں مدینۂمنوّرہ
میں کئی اعمال ووظائف بھی کیے، یہی وجہ تھی کہ ان کےتعویذات ودعا میں اللہ تعالیٰ
نے کافی تاثیر عطا فرمائی تھی۔
بیعت
واِرادت :
اپنے والدِ گرامی حضرت مخدوم المشائخ سرکار کلاں کے دستِ حق
پرست پر سلسلۂ عالیہ قادریہ چشتیہ اشرفیہ میں بیعت ہو کر اُن کے ولیِ عہد و جانشین نامزد ہوئے۔
دینی
خدمات:
جامع
اشرف کا قیام :
بقولِ
شیخِ اعظم اعلیٰ حضرت اشرفی
میاں کے فرزندِ اکبر عالمِ ربّانی حضرت مولانا احمد اشرف نے ایک عظیم ادارے کا
منصوبہ بنایا، جو موجودہ دور کے تمام تقاضوں کو پورا کر سکے اورفرمایا کہ جس طرح مصر میں جامع ازہر علوم ِعربی کا
مرکز ہے اسی طرح ہند میں جامع اشرف علوم
عربی کا مرکز ہوگا۔ میرے والدِ گرامی حضور مخدوم المشائخ سرکارِ کلاں اکثر
اپنے والدِ گرامی حضور مولانا احمد اشرف کی اس آرزو کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے اور
یہ بھی کہ اگر میری ذمّے داریاں اتنی بڑھی ہوئی نہ ہوتیں تو میں اپنے والد کی خواہش کی تکمیل کرتا۔ یہ
مخدوم المشائخ کا روحانی فیض تھا کہ میرے
دل میں اپنے دادا کے عظیم منصوبے کی تکمیل کا جذبہ پیدا ہوگیا اور میں نے جس وقت
والدِ گرامی کی بار گاہ میں اپنے ارادے کا اظہار کیا، بہت خوش ہوئے اور میری حوصلہ
افزائی فرمائی اور خانقاہِ اشرفیہ حسنیہ سرکار کلاں میں ادارہ قائم کرنے کی اجازت
عطا فرمادی، اس کے ساتھ ایک سال کے لیے مدرسین کی تنخواہ کی ذمّے داری بھی خود لے
لی، اس طرح 1978ء میں جامع اشرف کا قیام عملی طور پر خانقاہِ اشرفیہ حسنیہ سرکار
کلاں کی عمارت میں عمل میں آیا اور تعلیم کا آغاز ہوگیا۔
اب ادارے کی ذاتی عمارت کے لیے شیخِ اعظم نے ان تھک کوشش کی اور 1980ء میں دوسری مرتبہ حج کے لیے سفر کیا اور
وہاں سے بغداد شریف گئے اور بارگاہ ِغوثیہ میں جامع اشرف کی تعمیر کے لیے بجٹ
منظور کرو اکر لوٹے، پھر مخدوم المشائخ حضرت سرکار کلاں کے مقدس ہاتھوں اس کا سنگِ
بنیاد رکھوا کر تعمیری کام کا آغاز کردیا، ادارے کے لیے خانوادےکا بھی تعاون
رہا ۔خود شیخ اعظم فرماتے ہیں: میرے خاندان والوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی
خصوصاً عزیزی مولانا الحاج سیّد محمد مدنی میاں صاحب اشرفی جیلانی سَلَّمَہٗ جانشینِ مخدوم الملّت نے میرا بھر پور ساتھ دیا
ور ممبرسازی کی تحریک میں کافی دل چسپی لی جس کو ادارہ کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔
عزیز موصوف کا یہ ایک ایسا روشن وتاب ناک کردار تھا جس کی وجہ سے جامع اشرف کو
عظیم طاقت ملی اور اس کی شہرت وعظمت میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگیا۔ میری دلی
دعائیں موصوف کے ساتھ ہیں۔ (تعارف جامع اشرف، صفحہ نمبر 5)
اس طرح جامع اشرف کا تعمیری
وتعلیمی سفر جاری ہوگیا اور ترقی کے منازل طے کرتا رہا۔ پھر بھی کبھی کبھی اس کو
آزمائشوں کے دور سے گزرنا پڑا، لیکن شیخ اعظم کے پائے استقلال کو کوئی روک نہیں سکا۔ خود فرماتے ہیں: خانوادۂ اشرفیہ
کے دشمنوں نے ہماری آرزوؤں کے گلدستے کو پامال کرنا چاہا، لیکن خدا کا شکر ہے کہ
اب تک میں نے ان نامساعد حالات کے سامنے
اپنے عزم کے پرچم کو جھکنے نہیں دیا۔(تعارف جامع اشرف،
صفحہ نمبر 6)
الغرض
نامساعد حالات کا مقابلہ کرتےہوئے شیخِ اعظم نے درس گاہ کے لیے دس(10) کمرے اورہاسٹل کے لیے 32 کمروں پر مشتمل تین
منزلہ عمارت تعمیر کرائی، جس میں دونوں جانب بر آمدےرکھے گئے ہیں، جس سے عمارت کےحسن
میں چار چاند لگ گئے ہیں۔ یہ یقیناً شیخِ
اعظم کے فَنِّ تعمیر میں حُسنِ ذوق کی علامت ہے۔
تعلیمی
ترقی اور طلبہ کی تعداد میں اضافے کے پیشِ نظر جب یہ عمارت ناکافی ہونے لگی تو شیخِ اعظم نے ہاسٹل کے لیے مزید ایک تین منزلہ
عمارت تعمیر کرائی، جو 47 کمروں پر مشتمل ہے۔
25 سال کے عرصے میں طلبہ کی تعداد میں اتنا اضافہ ہوگیا کہ مذکورہ دونوں عمارتیں بھی ناکافی ہونے لگیں چنانچہ
سلور جوبلی کے موقع پر محرم الحرام 1424ھ/ 2003ء میں شیخ اعظم نے ایک تیسری عمارت
کا سنگِ بنیاد رکھا اورپانچ پانچ سو اسکوائر فٹ کے 18 ہال پر ایک تین منزلہ عمارت تعمیرکرائی، جس کا
استعمال صرف کلاس روم اور آفس کے لیے ہوتاہے۔
عرسِ مخدومی محرم الحرام 1433ھ/ 2011ء کے موقع پر شیخِ اعظم نے طلبہ کی تعداد میں مزید اضافے کا
عزم کرلیا اور اس کے لیے ایک چوتھی عمارت کا سنگِ بنیاد 30؍ دسمبر 2011ء بروز جمعہ
رکھا۔ یہ تین منزلہ عمارت 68کمروں پر مشتمل ہوگی جس کا تعمیری کام جاری ہے اور اِنْ شَآءَ اللہُ تَعَالٰی اس کی بھی تکمیل ہوجائے گی
کیوں کہ اس کی بنیاد اخلاص وللہیت پر رکھی گئی ہے۔
ان کے اخلاص کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ اس کی بنیاد کے لیے نہ کوئی
اخباری اعلان اور نہ عوام میں کوئی اطلاع دی بلکہ عرس کے سارے مہمان چلے جانے کے
بعد صرف اساتذہ جامع اشرف کی موجودگی میں
اس کی بنیاد رکھی جب کہ آج کے ماحول میں
ہرکام کی تشہیر ہوتی ہے، میڈیا کا
سہارا لیاجاتا ہے، لیکن شیخِ اعظم ان چیزوں سےدور رہے۔
الغرض، شیخِ اعظم اپنی زندگی کے آخری
حصّے تک جامع اشرف کی تعمیر وترقی کے لیے کوشش کرتے رہے۔ یہی وجہ ہےکہ اس کا شمار
آج اہلِ سنّت وجماعت کے عظیم
معیاری اداروں میں ہوتاہے، جس میں ابتدائیہ سے لے کر مفتی تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔
اتر پردیش مدرسہ تعلیمی بورڈلکھنؤ سے فاضل تک منظور شدہے؛ لیکن، حکومت سے کوئی
امداد نہیں لیتا بلکہ صرف اور صرف مریدین اور مخلصین کے تعاون سے چل رہا ہے۔
مولانا
احمد اشرف ہال:
حضرت سرکارِ کلاں کی دیرینہ خواہش تھی کہ عرس کے پروگرام کے لیے ایک عظیم
الشان ہال بیاد گار مولانا احمد اشرف تعمیر کیا جائے چنانچہ شیخِ اعظم نےاس کےلیے عملِ پیہم سے راہ ہموار کی اور حضرت سرکارِ
کلاں نے اس کی بنیاد 1985ء میں رکھی اور
کچھ حصّہ خود تعمیر کروایا، لیکن زندگی نے وفا نہ کی اوار ادھورارہ گیا، اس کی
تکمیل شیخِ اعظم نے کی۔ طرزِ تعمیر
میں یہ ہال اپنی مثال آپ ہے۔
مختار
اشرف لائبریری اور اہلِ
علم و اَربابِ دانش کے تاثرات:
مولانا احمد اشرف ہال کی بالائی منزل پر واقع یہ ایک عظیم الشان کتب خانہ ہے،
جسے شیخِ اعظم نے اپنے والدِ گرامی
حضرت سرکارِ کلاں کی یاد میں 1998ء میں قائم کیا ۔
تین سال کے عرصے میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی اور 1998ءسےلائبریری کا آغاز ہوگیا،
جس میں اسلامیات کے ہرفن یعنی قرآن، عُلومِ قرآن ، حدیث واصولِ حدیث، تفسیر واصولِ
تفسیر، فقہ واصولِ فقہ، فتاوٰی، رجال، تاریخ اور مناظرہ، خطبات، قصص اور اوراد و
و ظائف ، طب وحکمت، عربی ادب، فارسی ادب،
اردو ادب، تصوف، تذکرہ، سیرت، ملفوظات، مکتوبات، لغات، انساب وناول لائبریری سائنس
وغیرہ سے متعلق اردو، فارسی عربی اور انگریزی میں کتابیں موجود ہیں، جس کی مجموعی
تعداد اب تک تین ہزار ( 30000) ہے۔ اس کے علاوہ اردو، عربی اور فارسی میں مخطوطات
کابھی نادر ذخیرہ موجود ہے، جس سے طلبہ، علما، عوام اور اسلامیات کے ریسرچ اسکالرز
مستفیدہورہے ہیں۔ بڑے بڑے اہلِ علم واربابِ دانش نے اس سے
استفادہ کرکے مسرت کا اظہار کیا اور اپنے قیمتی تاثرات سے نوازا، مثلاً:
حضرت
اشرف العلما (بانی دارالعلوم محمدیّہ، ممبئی) کے تاثرات:
’’عزیزی سیّد اظہار الحق اشرف سَلَّمَہٗ نے جو کار نامے انجام دیے ہیں وہ قابلِ ستائش وشکر ہیں، احمد اشرف ہال کی
تعمیر اپنے وقت کی سب سےاہم تعمیر ہے، جس کے مختلف شعبہ جات میں سب سے اہم شعبہ مختار
اشرف لائبریری کا ہے۔ ‘‘
پروفیسر
سیّد امین اشرف (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ):
’’میرا تعلّق چوں کہ ایک یونیورسٹی سے رہاہےاس لیے میں بلا
خوف ِتردید کہہ سکتا ہوں کسی یونیورسٹی میں اسلامی عُلوم وفنون پر ریسرچ کرنے
والوں کے لیے ایسی بیش بہا کتابیں جو مختار اشرف لائبریری میں ہیں، نہیں ملیں گی۔‘‘
پروفیسر
عبدالحامد (شعبۂ اُردو الٰہ باد یونیورسٹی):
’’راقم نے مختار اشرف لائبریری سے استفادہ کیا بلا شبہ (مختار
اشرف لائبریری) غیر معمولی اور انتہائی اہم کتب کا ذخیرہ ہے۔‘‘
علامہ
عبد الحکیم شرف قادری:
’’جامع اشرف کی عظیم لائبریری کی زیارت سے اتنی مسرت حاصل
ہوئی جسے بیان نہیں کیا جاسکتا ۔‘‘
آفتاب
عالم ((ڈائریکٹر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد):
’’ جس طرح اس (مختار اشرف لائبریری ) کو سجانے اور سنوارنے
کاکام کیا گیا ہے وہ لائقِ ستائش ہے اس میں ہر طرح کے
موضوعات اور علوم وفنون کی کتابیں دیکھنے کو ملیں۔‘‘
ڈاکٹر
شاہ کوثر مصطفیٰ (پروفیسر ڈھاکہ یونیورسٹی):
"I am very happy to visit
Mukhtar Ashraf Library. It is having a very rich collection."
عمر
عبداللہ وزیرِ اعلیٰ جموں کشمیر:
"Thank you for a very
important visit. I wish the library all success."
شیخ
الاسلام حضرت علامہ سیّد محمد مدنی اشرفی جیلانی :
’’میں اپنی فیروز بختی پر کتنا ہی ناز کروں کم ہے کہ آج
آبروئے خانوادۂ اشرفیہ حضرت شیخِ اعظم دامت برکاتہم القدسیۃ کی معیت میں مختار اشرف
لائبریری کی تفصیلی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی ۔ لائبریری کی زیارت سے فارغ ہوکر
عالم ِخیال میں لائبریری کو مخاطب کرکے
عرض کیا۔
بسیار خوباں دیدہ ام
لیکن تو چیزی دیگری
یوں ہی شیخِ اعظم کو ذہن میں حاضر کرکے
بول پڑا:
تونے پیری میں کیے کام جواں
سالی کے
کتنی مضبوط و توانا ہے نقاہت تیری‘‘
اشرف
حسین میوزیم :
کتب خانہ متصل ایک ہال میں واقع یہ میوزیم فَنِّ تعمیرکا بہترین نمونہ ہے، جس
میں خانودۂ اشرفیہ حسنیہ سرکارِ کلاں کے بزرگوں کے تبرکات وملبوسات عوام کی زیارت
کے لیے موجود ہیں۔
مسجدِ
اعلیٰ حضرت اشرفی:
درگاہِ کچھوچھہ شریف میں ایک وسیع وعریض مسجد کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی
تھی کیوں کہ زائرین آستانہ، نیز محلّہ کے لوگوں کو نماز کے لیے بڑی دشواری ہوتی
تھی؛ چنانچہ اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے شیخِ اعظم نے ایک شان دار مسجد 1985ء میں تعمیر کروائی جو بڑی دل کش اور جاذب
نظر ہے جس کا گنبد اور مینار مسجد نبوی کے طرز پر ہے، مسجد بلال مدینہ منورہ سے
عالم شیخ احمد بن صالح با فیاض نے اس مسجد کو دیکھا تو دیکھتے ہی رہ گئے، مسجد کے
اندرونی حصے میں سات صفیں ہیں لیکن ایک بھی ستون نہیں، لوگ مسجدوں کو نقش ونگاری
سے مزیّن کرتے ہیں لیکن شیخِ اعظم نے اس کوقرآن وحدیث
اور مناجات لکھوا کر آراستہ کیا ہے۔
نور
العین پارک:
مسجد کے سامنے وضو کی سہولت کےلیے پارک کی شکل میں خوش نما حوض بنایا گیا ہے
جس میں ایک فوارہ بھی ہے تاکہ وضو کے ساتھ ساتھ تفریحِ طبع کا ذریعہ بھی ہو۔
اظہار
اشرف کمپیوٹر سینٹر :
لائبریری سے متصل ایک چار منزلہ عمارت بنائی گئی ہے جس کی دوسری منزل میں یہ سینٹر
واقع ہے۔ اس میں 14 کمپیوٹر سیٹ لگے ہیں جن کے ذریعے کمپیوٹر ٹیکنا لوجی سے اساتذہ
وطلبہ مستفیض ہورہے ہیں۔
آستانۂ
عالیہ اشرفی میاں:
نیر شریف کے کنارے اپنے آبائی قبرستان میں مدفون مجددِ سلسلۂ اشرفیہ شیخ
المشائخ ہم شبیہِ غوث الثقلین حضرت علامہ سیّد علی حسین اشرفی جیلانی معروف بَہ ’’اعلیٰ
حضرت اشرفی میاں‘‘ کے مزار کی تعمیر شیخِ اعظم نے نمایاں طور پر کرائی ،جس میں
گنبد نہیں ہے، بلکہ صرف چھت ہے اور چار
مینار ہیں ۔ اسی میں ان کے دادا عالم ِربّانی حضرت مولانا سیّد احمد اشرف کا مزار
ہے۔ نیز اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کے پیرومرشد اور بڑے بھائی حضرت علامہ سیّد اشرف
حسین کا مزار بھی ہے۔ اس کی تعمیر میں بے شمار رکاوٹیں آئیں، لیکن شیخِ اعظم کے عزم نے تمام رکاوٹوں کا مقابلہ
کرتے ہوئے اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔
آستانۂ
سرکارِ کلاں:
خانقاہِ اشرفیہ حسنیہ کے مین گیٹ کے پاس ہی شیخِ اعظم کے والدِ گرامی سرکارِ کلاں مخدوم المشائخ حضرت علامہ سیّد محمد
مختار اشرف اشرفی جیلانی سجادہ نشیں آستانۂ اشرفیہ کا مزارِ پاک ہے، جس
پر شیخِ اعظم نے چشتی ٹوپی کی شکل میں گنبد اور چار مینار کی تعمیر کروائی ہے، جو اپنے طرز میں انوکھا ہے۔اس میں سرکارِ کلاں سے
متصل ان کی والدہ محترمہ اور شیخِ اعظم کی دادی کا مزار ہے، جو مشرق کی
جانب ہے اور دونوں کے پائنتی شیخِ اعظم کی آخری آرام گاہ ہے۔
خانقاہ
ِاشرفیہ حسنیہ سرکار کلاں کی توسیع :
خانقاہِ
اشرفیہ کے معمارِ اوّل اعلیٰ حضرت اشرفی میاں ہیں۔ انہوں
نے 1882ء میں اس کی بنیاد رکھی اور چند کمرے تعمیر کروائے۔ پھر ان کے جانشین مخدوم
المشائخ حضرت سرکارِ کلاں نے اس کو آگے بڑھایا۔ ان کے بعد ان کے جانشین شیخِ اعظم نے عالمی معیار کے مطابق اس کو ترقی دی ہے ۔ چنانچہ
دنیا کے ہر خطے سے آنے والے مریدین وزائرین کے لیے ان کے معیار کے مطابق خانقاہ میں
رہائش کی سہولت موجود ہے ۔ یہ شیخِ اعظم کی وسیع النظری اور
انتہائی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ کچھوچھہ جیسے چھوٹے سے قصبے میں عالمی معیار کی
خانقاہ اور ادارے معرضِ وجود میں آئے، جس سے رہتی دنیا تک آنے ولی نسلیں مستفید
ہوتی رہیں گی اورگم گشتگانِ راہ ہدایت پاتے رہیں گے۔ اس کے علاوہ آپ نے ہندوبیرونِ
ہند میں ان گنت ادارے قائم کیے اور تاحیات سرپرستی فرماتے رہے۔
علمِ
حدیث:
علمِ حدیث میں شیخِ اعظم کو نمایاں مقام حاصل
تھا۔ جامع اشرف اور دیگر سنّی اداروں میں افتتاحِ بخاری شریف اور ختمِ بخاری شریف کے
موقع پر ان کے درسِ حدیث کی مجلسیں اس کی شاہد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیکڑوں علما ان
سے سندِ حدیث لے چکے ہیں، سب سے آخر میں آپ سے سندِ حدیث حاصل كرنے والے مولانا
آفتاب عالم اشرفی (ہالینڈ امسٹرڈم) ہیں۔
تبلیغی
دورے:
آپ کی تبلیغ کا دائرۂکار ایشیا سے یورپ تک پھیلا ہے۔ ہندوستان میں یوپی، بہار،
جھارکھنڈ، بنگال، مہاراشٹر، راجستھان، پنجاب اور گجرات میں آپ کے تبلیغی دوروں سے
ہزاروں کی تعداد میں لوگ غلط عقائد سے تائب
ہوکر سنّیت میں داخل ہوئے۔ بلکہ بہار کے بعض علاقوں میں سنیت کی اشاعت آپ ہی کی
کوششوں کا نتیجہ ہے؛ خصوصاً پورنیہ، کٹیہار، کشن گنج اور ارریہ کے علاقے میں۔
ادبی
کا رنامے:
شیخِ اعظم فی البدیہ شاعر تھے۔
آپ نے نعت، منقبت، سلام، رباعیات اور غزل پر طبع آزمائی کی ہے۔ آپ کا شعری مجموعہ
بنامِ ’’اظہارِ عقیدت‘‘ سب سے پہلے کراچی سے شائع ہوا، اس کے بعد ہندوستان میں
لکھنؤ سے شائع ہوا۔ ’’اظہارِ عقیدت‘‘ کی جلد دوم بھی چھپ کر منظرِ عام پر آ گئی
ہے۔ تیسرا مجموعہ ’’اظہار ِسخن‘‘ ہے، جو
الاشرف اکیڈمی دلی سے شائع ہوا، چوتھا مجموعہ ہے ’’اظہار المنظوم فی ترجمۃ مثنوی مولانا روم‘‘۔ یہ مثنوی مولانا روم کا
منظوم اردو ترجمہ ہے جوکئی ہزار اشعار پر مشتمل ہے اور اشاعت کے مرحلے میں ہے۔ یہ
شائع ہوجانے پر یقینا ًادبی دنیا میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا۔
وصال
:
علم وعمل کے عظیم شہسوا ر سنّیت
کے تاج دار آبروئے خانوادۂ اشرفیہ جادۂ اشرف سمنانی
کے مسند نشین دینِ اسلام اور قوم وملّت کی
تاحیات خدمت کرتے رہے اور 30؍ ربیع الاوّل 1433ھ مطابق 22؍ مارچ 2012ء کو رفیقِ اعلیٰ سے جاملے۔
(نَوَّرَاللہُ تَعَالٰی مَرْقَدَہٗ،
وَ وَفَّقَنَا اتِّبَاعَ مَنْھَجَہٗ) آمِیْن بِجَاہِ سَیِّدِ الْمُرْسَلَیْنَ ﷺ!
ماخذ:
’’شیخِ اعظم کا
سوانحی خاکہ‘‘، از ڈاکٹر محمد قمر الدین اشرفی ، شیخ الادب جامع اشرف ، درگاہ
کچھوچھہ شریف، مشمولہ: ’’معارفِ شیخِ اعظم، جلدِ اوّل، ناشر: جمعیۃ الاشرف اسٹوڈینٹس موومنٹ، جامع
اشرف، کچھوچھہ شریف، صفحات ۱۲۴ تا ۱۳۰۔
