حضرت سید محمد موسیٰ شاہ بن سید محمد عابد بن سید عبدالجلیل جیلانی گھوٹکی(سندھ) کے جیلانی سادات کرام کی حویلی میں تولد ہوئے۔
سلسلہ نسب یوں ہے:
الشیخ ابو صالح سید موسیٰ شریف عارف باللہ بن سید محمد عابد بن سید عبدالجلیل بن سید کمال الدین بن سید مبارک شاہ عادلپوری بن سید حسین دہلوی بن سید محمد مکی العربی بن سید یونس بن سید احمد بن سید جعفر بن سید عبدالقادر بن سید حسین بن ابو نعمان بن سید حمید الدین بن سید عبدالجلیل بن سید عبدالجبار بن شیخ محی الدین ابو محمد سید عبدالقادر حسنی حسینی جیلانی غوث اعظم پیران پیر دستگیر رضی اللہ عنہ (آستانہ عالیہ قادریہ بغداد شریف )
حضرت سلطان باہوکا اثر:
حضرت موسیٰ شاہ کم سنی میں یتیم ہو گئے تھے والدہ ماجدہ نے پرورش کی۔ گھوٹکی میں ایک گلال شخص رہتا تھا ، وہ سلطان العارفین حضرت سلطان باہو قدس سرہ ( متوفی ۱۱۰۲ھ)کے فیض یافتہ مرید تھے۔ اس پر ہدایت کے آثار اور فیضان الہٰی کے انوار متجلی ہوئے اور اس کے حالات اعلیٰ درجے کے ہو گئے ، خلقت اس کی طرف رجوع کرنے لگی ، وہ صاحب ارشاد شیخ ہو گئے ۔ حضرت موسیٰ شاہ کی والدہ نے یہ حالات دیکھ کر اس بزرگ درویش شخص سے بہت متاثرہ ہوئیں اور دریافت فرمایا: فقیر !آپ کو یہ نعمت عظمیٰ کہاں سے عطا ہوئی ہے‘‘۔معلوم ہونے کے بعد مزید سیدہ صاحبہ نے فرمایا: آپ جب اپنے شیخ کی زیارت کے لئے جائیں تو برائے کرم میرے لاڈلے بیٹے موسیٰ شاہ کو بھی ساتھ ل ے جایئے گا تاکہ ان کی زیارت و صحبت سے میرے بچے کی بھی قسمت سنور جائے‘‘۔ جب درگاہ سلطانیہ شور کوٹ (ضلع جھنگ ) فقیر جانے لگا تو سیدہ صاحبہ نے فرمایا: اپنے شیخ کی خدمت میں عرض کیجئے گا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ تارک الدیناہیں اور ہر ایک مرید و طالب کو ترک دنیا کا حکم دیتے ہیں ہم چونکہ ازحد مسکین ہیں اور فقر و فاقہ اور مسکینی کا بوجھ ہم عمر بھر اٹھاتے اٹھاتے تنگ آگئے ہیں ۔ میرے بیٹے (موسیٰ شاہ ) کو آپ دونوں نعمتیں عطا فرمائیں یعنی دینی اور دنیوی‘‘۔
وہ درویش ، نوجوان بچے (حضرت موسیٰ شاہ ) کو اپنے ساتھ حضرت سلطان باہو کی خدمت شریف میں لے کر پہنچے ، اور تمام معروضات عرض کر دیں ، آپ نے فرمایا: سید موسیٰ شاہ کی والدہ کو ہماری طرف سے کہنا کہ انشاء اللہ تعالیٰ قیامت تک یہ دونوں نعمتیں تمہارے گھر میں رہیں گی ۔ اور فرمایا: یہ بچہ چھوٹی عمر کا ہے اس کی ماں سے کہنا کہ پہلے اسے ظاہری تعلیم دلوائے اور جب فارغ التحصیل ہو جائے تو پھر ہمارے پاس آئے، اس سید زادہ کے لئے ہمار ے پاس نعمت (امانت ) ہے ۔ (مناقب سلطانی)
تعلیم و تربیت :
جب آپ گھوٹکی واپس تشریف لائے اور اپنی والدہ ماجدہ کو حضرت کا پیغام سنایا۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کو فوری طور پر مدرسہ میں داخل کیا۔ (مناقب سلطانی ) وہیں تعلیم حاصل کر کے فارغ التحصیل ہوئے لیکن ہمیں مدرسہ و اساتذہ کا علم نہ ہو سکا۔
بیعت و خلافت :
جب آپ فارغ التحصیل ہوئے تو پھر اسی گلال درویش شخص کے ساتھ حضرت موسیٰ شاہ کو حضرت سلطان باہو کی خدمت میں بھیجا ۔ جب رنگ پور کھیڑ(پنجاب) میں پہنچے تو اچانک خبر معلوم ہوئی کہ عاشق غوث اعظم ، سلسلہ قادریہ کے علمبردار ، فنافی اللہ حضرت سلطان باہو قدس سرہ الاقدس اس جہان فانی سے دار البقا کو روانہ ہو گئے ہیں ۔ یہ جانکا ہ واقعہ سنتے ہی وہ فنافی الشیخ درویش بھی ملک بقا کو روانہ ہوگئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔موسیٰ شاہ ، رنگ پور سے اکیلے ہی روتے دھوتے شکستہ حال گرتے سنبھلتے حضرت سلطان باہو کی دربار مقدس پر وصال کے دوتین دن بعد پہنچے۔
وصال کے وقت آپ نے فرمایا: موسیٰ شاہ نامی نوجوان جنوب کی طرف سے رب الرباب کی طلب کے لئے آرہا ہے، اسے خاص نعمت دینا۔ جناب صاحبزادے صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔کی زبان سے نکلا کہ یا حضرت! اسے کیا دیناچاہئے۔ حضرت قدس سرہ نے اپنا دست مبارک بڑھا کر انگشت مبارکہ سے خود اسم ذات اللہ لکھا اور اس کے حق میں کچھ نہ کہا۔
صاحبزادہ صاحب (شیخ سلطان نور محمد قادری ) نے وہی اسم اللہ کا نقش مٹی کی رکابی سے ڈھانپ رکھا۔ دو تین دن کے بعد موسیٰ شاہ پہنچے تو فورا اس اسم اللہ کے نقش پر سے رکابی اٹھائی اور انہیں دکھایا۔ موسیٰ شاہ دیکھتے ہی بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے اور صاحبزادوں نے بد ستور اس نقش کو ڈھانپ دیا۔ حضرت موسیٰ شاہ تین دن و رات بے ہوش اور بے خبر پڑے رہے۔ بعدازاں ہوش میں آئے اور دوسری مرتبہ اسم ذاتی کے نقش کو دیکھا تو پھر مست ہو گئے دو دن و رات کے بعد ہوش میں آئے پھر تیسری بار جب دیکھا تو ایک دن و رات مست رہے۔ چوتھی بار دیکھنے کے بعد مستی غالب نہ آسکی یعنی نعمت نے دل میں قرار پکڑلیا۔
جس مٹی پر نقش اللہ لکھا ہوا تھا وہ مٹی پانی میں گھول کر موسیٰ شاہ کو پلائی گئی ۔ وہیں قیام کیا۔
صاحبزادہ حضرت شیخ سلطان نور محمد کی صحبت اختیار کی، سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت و خلافت سے سر فراز فرمایا۔ ارشاد و تلقین کی اجازت ملنے کے بعد اپنے گوٹھ گھوٹکی (سندھ) میں مسند ارشاد پر متمکن ہوئے۔
آپ کا سلسلہ طریقت قادریہ یوں ہے:
حضرت موسیٰ شاہ جیلانی گھوٹکی
حضرت شیخ سلطان نور محمد قادری شور کوٹ
حضرت سلطان باہو درگاہ سلطانیہ شور کوٹ ضلع جھنگ
حضرت سید عبدالرحمن جیلانی دہلوی
شیخ سید عبدالجلیل
شیخ سید عبدالقادر
شیخ سید عبدالستار
شیخ سید عبدالفتاح
شیخ نجم الدین برہانپوری
شیخ محمد صادق یحییٰ
شیخ عبدالجبار
شیخ حضرت سید عبدالرزاق جیلانی بغداد شریف
غوث اعظم سید عبدالقادر جیلانی (مناقب سلطانی)
تعمیر مسجد :
آپ گھوٹکی میں واپس تشریف لائے ارشاد و تلقین ،وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع کیا، تھوڑے ہی دنوں میں مجمع کثیر جمع ہو گیا، طالبان حق، مشتا قان دید آپ کو گھیرے ہوئے تھے۔ اس لئے ۱۱۴۸ھ کو ایک عظیم الشان جامع مسجد تعمیر کروائی جو کہ آج بھی بڑی شان سے قائم ہے اور جامع مسجد گھوٹکی کے نام سے مشہور ہے ۔ یہ خوبصورت و شاندار جامع مسجد وسیع و عر یض ہال و صحن پر مشتمل نہایت دلکش ہے۔ یہ مسجد ساٹھ (۶۰)ستونوں پر قائم ہے اس سے اس کی وسعت کا اندازہ لگایئے۔ (مذکورہ سن و احوال پاکستان ٹی وی کی رپورٹ سے لیا گیا ہے جو کہ سجادہ نشین سید مبارک علی شاہ جیلانی نے انٹر ویو میں بتایا تھا)
اصلاح معاشرہ :
حضرت موسیٰ شاہ نے سندھ میں ایک لاکھ آدمیوں کو ارشاد و تلقین فرمایا۔ آپ کے امر معروف ( دعوت و تبلیغ) کے سبب ملک سندھ میں سوسو کوس تک کسی قسم کی بدعت مثلا: بھنگ نوشی ، حقہ کشی، ساز سرود، ڈھولک بانسری وغیرہ کچھ بھی استعمال نہ ہوتا۔ (مناقب سلطانی)
آپ کی کوشش و کاوش سے ایک لاکھ انسان گمراہی و بدعت سے محفوظ رہے اور سیدھے راستے پر گامزن ہوئے۔ مساجد و مدارس آباد ہوئے حلقہ ذکر سے ویران قلب آباد و زندہ ہوئے ۔ آپ نے سلسلہ قادریہ کی ترویج و اشاعت کے ذریعے کا قلع قمع کیا اور سنت نبوی کا احیاء کیا۔
وصال :
آپ کے دوستوں میں مخدوم الملک مخدوم عبدالرحمن شہید عباسی قدس سرہ (۱۱۴۵ھ)درگاہ مخادیم کھہڑا ضلع خیر پور میرس کا نام نامی اسم گرامی مشہور ہے۔ اور ’’محبوب الشہد اء ‘‘کتاب میں دونوں بزرگوں کی دوستی عقیدت و محبت کا ذکر خیر درج ہے۔
شیخ المشائخ ، عارف باللہ، سید الکاملین حضرت مخدوم حافظ محمد اسماعیل نقشبندی قدس سرہ (خانقاہ پریاں لوء شریف ضلع خیر پور میرس ) اور امام اہل سنت ، عاشق خیر الوری ، مجدد برحق ، مفتی اعظم حضرت علامہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی قادری قدس سرہ بھی آپ کے ہمعصر ، ہم عقیدہ ، ہم مذہب تھے اور دونوں بزرگوں کا سن وصال ۱۱۷۴ھ ہے۔
آپ نے ۸، ذوالحجہ ۱۱۷۳ھ؍۱۷۶۰ء بروز ہفتہ عصر کے وقت اس دنیا فانی سے کوچ کیا۔ آپ کی مزار مقدس جامع مسجد گھوٹکی کے متصل مرجع خلائق ہے۔
بود موسیٰ شاہ اکبر پیر عالی قدر و شان
شد مقلب اوثانی محی الدین اندر جہاں
عارفان را پیر کامل سالکان را رہنما
در ولایت ہم کرامت شہرہ آفاق دان
(تذکرہ سادات جیلانی ص طبع قدیم )
[میاں عبدالحی قادری صاحب کا ممنون و مشکور ہوں کہ انہوں نے ’’مناقب سلطانی ‘‘طبع قدیم سے مضمون کی نقل بھجوائی جس سے دو حوالے مزید ملا کر یہ مضمون ترتیب دیا گیا ورنہ آپ کے حالات سندھ کی کسی کتاب میں نظر سے نہیں گذرے حتیٰ کہ مشاہیر نمبر میں آپ کی اولاد و سجادگان کا احوال تو ہے لیکن آپ کا ذاتی احوال ندارد اور موجودہ سجادہ نشین کو باربار متوجہ کرنے کے باوجود حصول مواد کے سلسلہ میں ناکامی ہوئی]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )