سید مزمل چشتی شیخ عبد الوہاب جو ہندوستان کے اکابر سادات میں سے تھے کہ بیٹے ہیں آپ نے جوانی کے عالم میں اپنے پیر و مرشد کی نگرانی میں بڑی ریاضتیں اور مجاہدے کیے کئی کئی راتیں قیام اللیل فرماتے اپنے مرشد سے اتنے فیضان پائے کہ صاحب کرامات و کمالات بن گئے۔
معارج الولایت میں لکھا ہے کہ ۔۔۔۔
سید مزمل چشتی شیخ عبد الوہاب جو ہندوستان کے اکابر سادات میں سے تھے کہ بیٹے ہیں آپ نے جوانی کے عالم میں اپنے پیر و مرشد کی نگرانی میں بڑی ریاضتیں اور مجاہدے کیے کئی کئی راتیں قیام اللیل فرماتے اپنے مرشد سے اتنے فیضان پائے کہ صاحب کرامات و کمالات بن گئے۔
معارج الولایت میں لکھا ہے کہ سید مزمل کو ایک بار خیال آیا کہ وہ اپنے مرحوم والد کی قبرکی زیارت کرے چنانچہ اپنا یہ ارادہ اپنے پیر و مرشد کے سامنے بڑے اصرار سے کیا مگر آپ نے تین بار اس ملاقات سے منع فرمایا مگر سید مزمل کا اصرار بڑھتا گیا حضرت نے فرمایا اچھا اگر تم اصرار کرتے ہو تو یاد رکھو تم کو اتنے سال شیر شاہ سوری کے لشکر میں ملازمت کرنا ہوگی جب شیر شاہ قلعہ گوالیار کی فتح کے لیے لشکر کشی کرے تو تم اس لشکر میں ساتھ ہوگے تمہارے لیے ایک کھلی جگہ پر خیمہ نصب کر دیا جائے گا جہاں تم فتح قلعہ کے لیے دعا کرو گے ایک دن وہاں تمہارے خیمہ کے دروازے پر ایک ایسا شخص آئے گا جس کی وضع قلندرانہ اور لباس پھٹا ہوا ہوگا۔ اسے پورے آداب و اخلاق سے پیش آنا وہ تمہارے والد مرحوم سے ملاقات کابندوبست کرے گا سیّد مزمل لشکر میں بھرتی ہوگئے کچھ عرصہ بعد واقعی شیر شاہ سوری نے گوالیار پر لشکر کشی کی اور آپ کا خیمہ نصب کیا گیا ایک دن ایک قلندر آیا اور اس سے دریافت کیا سید مزمل واقعی آپ اپنے والد سے ملنا چاہتے ہیں۔ آؤ۔ خیمہ سے باہر آؤ وہ باہر آئے تو قلندر نے کہا اب آپ دوبارہ خیمہ میں اندر جاؤ آپ کے والد کھڑے ہوں گے سیّد مزمل آگے بڑھے دیکھا کہ اُن کے والد مرحوم کھڑے ہیں وہ ڈھاریں مار کر روتے روتے والد کے قدموں میں گر گئے لیکن جب سر اٹھایا نہ وہاں والد تھے نہ قلندر۔ واپس اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوکر سارا واقعہ سنایا آپ نے فرمایا تم نے بے صبری کا مظاہرہ کیا ورنہ والد سے باتیں کرنے کا بھی موقعہ مل جانا تھا۔
سید مزمل ایک عرصہ تک اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں رہے اور کمالات حاصل کرتے رہے آخر کار ۱۰۱۵ھ میں فوت ہوگئے۔
بجنت رفت از دنیائے فانی
چوں آں سیّد مزمل خواجہ دہر
دلی شیخ جہاں وصلش رقم کن
۱۰۱۵ھ
بخواں سید مزمل خواجہ دہر
۱۰۱۵ھ