ان کا نسب ان کے والد کے ذکر میں بیان ہوچکا ہے اور یہ انصاری خزرجی ہیں۔ انھوں نےرسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کازمانہ پایاتھا۔ان کی کنیت ابومحمد تھی اور بعض لوگوں نے بیان کیاہے کہ ابوسعید تھی یہ عبدالرحمٰن شاعر تھے۔ان کی والدہ سیرین قبطیہ مریہ قبطیہ کی بہن تھیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان بن ثابت کوہبہ کردیا تھا انھیں سے عبدالرحمٰن پیدا ہوئے اسی وجہ سے کہا گیاہے کہ یہ عبدالرحمٰن حضرت ابراہیم فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے خالہ زاد بھائی ہیں اور بعض لوگوں کابیان ہے کہ یہ (صحابی نہیں ہیں بلکہ)تابعی ہیں۔محمد بن سعد نے بیان کیا ہے کہ یہ اہل مدینہ کے طبقہ ثانی کے تابعین سے ہیں۔محمد بن اسحاق نے سعید بن عبدالرحمٰن بن حسان سے انھوں نے اپنے والد حسان سے روایت کی ہے کہ حسان (ایک دن) راستے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے(اس وقت) آپ کے ساتھ حارث مزنی تھے جب حسان نے حارث مزنی کو پہچانا تویہ شعرکہے۔
؎ یاحار من یغدر بذمتہ جارہ ٘ منکم فان محمد الایغدر
وامانتہ المزنی حیت یقتہ ٘ مثل الزجاجتہ صدعہا لا بجر
ان تغدر وافالغدر من عاداتکم ٘ والغدر حسیت فی اصول السنجر
ہم کو ابومحمد بن حافظ ابی قاسم نےخبردی وہ کہتے تھے ہم سے علی بن بکر نے بیان کیاانھوں نے احمد بن خلیل سے انھوں نے عمربن عبیدہ سے نقل کیا ہے وہ کہتے تھے مجھ سے ہارون بن عبداللہ زہری
۱؎ ترجمہ اے حارث تمھارے قبیلہ کے لوگوں میں سے جو شخص اپنے پڑوسی سے بدعہدی کرتاہے (اس سے کہدو کہ)محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)بدعہدی نہیں کرتے٘اس مزنی شخص کی امانت (وہیں پہنچادو)جہاں تم اس سے ملے تھے ٘وہ امانت مثل شیشہ کے ہے کہ اس کی شکستگی کی اصلاح نہ ہو سکے گی ٘تم لوگ اگربدعہدی کرتے ہوتو کچھ عجب نہیں بدعہدی توتمہاری عادت ہے ٘بد عہدی توتمھارے حصہ میں ہے۔
نے بیان کیاوہ کہتے تھے مجھ سے ابن ابی زریق نےبیان کیا کہ عبدالرحمٰن بن حسان نے رملہ بنت معاویہ کومخاطب بناکر کچھ عاشقانہ اشعارکہے تھے وہ اشعاریہ ہیں ؎
۱؎ رمل ہل تذکرین یوم عراک٘ اذاقطعنا ہمسیرنا بالتمنی٘ اذتقویس عمرک اللہ ہل شی٘ وان جل سوف یسلیک غنی٘ام ہل اطمعت منک یا ابن حسان کماقداراک اطعمت منی٘یزید کوجب ان اشعار کی خبرپہنچی تواسے غصہ آگیا اور حضرت معاویہ کے پاس جاکرکہنے لگااے امیرالمومنین اس بے دین بچہ کوجواہل یثرب سے ہےآپ نے دیکھا کہ ہماری آبروریزی کیس طرح کررہاہے اور ہمارے گھرکی عورتوں سے اظہار عشق کرتاہے حضرت معاویہ نے کہا وہ کون ہے یزید نے کہاعبدالرحمٰن ابن حسان اور جوکچھ شعر عبدالرحمٰن بن حسان نے کہے تھے وہ پڑھ کر سنائے۔حضرت معاویہ نے کہا اے یزید (فضل خدا سے اس وقت ہم کوہرطرح کی قدرت حاصل ہے صاحب قدرت سے زیادہ (اپنے دشمن کو)کوئی سزا نہیں دے سکتا(پس تو اس قدر کیوں پریشان ہوتاہے)ذراتوقف کر اس کوچھوڑدے جب انصار کا وفدآئےتو مجھ کو یاد دلانا چنانچہ انصارکاوفدآیاتو یزید نے حضرت معاویہ کویاددہانی کی حضرت معاویہ نے عبدالرحمٰن سے کہا کہ اے عبدالرحمٰن کیا مجھ کو یہ خبر نہیں پہنچی کہ تم نے رملہ کومخاطب بنا کر کچھ عاشقانہ اشعارکہےہیں انھوں نے کہا اے امیرالمومنین ہاں(میں نے کہے ہیں)(لیکن یہ صرف شاعرانہ مضمون ہے اور شاعر اپنامعشوق اسی کوفرض کرتاہے جواس کے نزدیک حسن وجمال میں سب سےفائق ہوتا ہے پس اگر میں رملہ سے زیادہ کسی اورکواپنے شعر (میں مخاطب بنانے)کے لئے مناسب جانتاتو اسی کوبناتا حضرت معاویہ نے کہا کہ (اگر ایساہے)توتم نے رملہ کی بہن ہندکوکیوں مخاطب نہ بنایا اس کی ایک بہن ہندبھی ہے عبدالرحمٰن نے کہا اب اس کو بھی مخاطب بناؤں گا حضرت معاویہ کا مقصود یہ تھا کہ اگردونوں کو مخاطب بنالیں توایک شاعرانہ مضمون ہوناثابت ہوجائے (چنانچہ ایسا ہی ہوا)مگریزیداس فیصلہ پر راضی نہ ہوااوراس نے کعب بن جعیل (شاعر)کوبلوابھیجا اور اس سے کہا کہ تو انصار کی ہجوکرکعب نے کہا میں امیرالمومنین سے ڈرتاہوں(اس لئے خود تو نہیں کہہ سکتا)مگرایک کافر شاعرکاآپ کو پتہ دیتاہوں وہ بڑا استاد ہے یزید نے کہا وہ کون ہے کعب نے کہا اس کا نام اخطل ہے چنانچہ یزید نے اخطل سے کہا کہ توانصار کی ہجوکراخطل نے بھی کہا کہ میں امیرالمومنین سے ڈرتاہوں یزید نے کہا کچھ خوف نہ کرومیں اس کا ذمہ دارہوں پس اخطل نے یہ ہجویہ اشعارکہے۲؎ واذا نسبت ابن الفعریعتہ طلتہ ٘کالحجش بین حمارۃ وحمار٘ لعن الالہ مین الیہوعصابتہ بالجزع بین صلصیل وصراعہ ٘خلو المکارم لستم من اہلہا ٘وخذوامساحیکم بنی نجار٘ ذہبت قریش بالمکارم والعلی ٘واللوم تحت عمائم الانصار٘ ان اشعارکی خبرجب نعمان بن
۱؎ترجمہ اے رملہ تمھیں چشمہ والادن یاد ہے٘ جب ہم نےاورتم نے بڑے شوق میں قطع مسافت کی تھی ٘ جب تم (مجھ سے )یہ کہہ رہی تھیں کہ اللہ تمھیں زندہ رکھے کیاکوئی ایسی تدبیرہے جوتم کومجھ سے خوش کردے گووہ تدبیر دشوارہو(توبھی تم مجھ بتادو اچھایہ بتاؤ)اے ابن حسان کبھی میں نے بھی تم سے کسی بات کی خواہش کی ہے٘ جس طرح میں تمہیں اپنے سے خواہش کرتاہوا)دیکھ رہی ہوں۱۲ ۲؎ترجمہ جب فریعہ (قبیلہ انصار کی ماں کا نام ہے)کا بیٹا اپنانسب بیان کرتاہے٘ جس طرح گدھے کا بچہ گدھے اورگدھی سے پیداہوتاہے ٘اللہ یہودیوں کے گروہ کولعنت کرے ٘جو اونٹ اورگھوڑوں کے درمیان شورمچایاکرتے ہیں ٘اے یہودیوبزرگیوں کوتم چھوڑدو تم اس کے لائق نہیں ہو ٘اور اےبنی نجارتم اپنے پھاؤڑے لے کرکام کرو٘ سب بزرگیاں اور بلندیاں قریش لے گئے ٘اور انصارکے عماموں کے نیچے ملامت ہے٘۱۲۔
بشیرکوہوئی تو وہ حضرت امیرمعاویہ کے پاس گئے اور اپنے سرسے عمامہ اتار کرکہاکہ اے امیرالمومنین دیکھوکیاتمھیں ملامت دکھائی دیتی ہے حضرت امیرمعاویہ نے کہانہیں بلکہ بزرگی اور خیریت دکھائی دیتی ہے نعمان بن بشیر نے کہااخطل یہ کہتاہے کہ ہمارے عماموں کے نیچے ملامت ہے حضرت امیرمعاویہ نے (بہت تعجب کے ساتھ)پوچھاکیااس نے ایساکہاہے نعمان بن بشیرنے کہا ہاں کہاہے حضرت معاویہ نے فرمایا توتم کواس کی زبان (کاٹ لینے)کااختیارہےاور(یہ کہہ کر)اخطل (ناہنجار)کے حاضرکرنے کاحکم دیاجب وہ لایاگیاتو اس نے قاصد سےکہامجھے یزید کے پاس لے چلو چنانچہ وہ اس کویزید کے پاس لے گیااخطل نے (یزیدسے)کہااسی بات سے میں ڈرتاتھا یزید نے کہا تم کچھ خوف نہ کرو اور یزید حضرت معاویہ کے پاس گیااورکہاآپ نے اس شخص کوکیوں بلایا ہے یہ تو ہماری تعریف کرتاہے اور ہمارے دشمنوں کی مذمت کرتاہے حضرت معاویہ نے کہا اس نے انصار کی ہجوکی ہےیزید نے پوچھاکون کہتاہے حضرت معاویہ نے کہا نعمان بن بشیر یزید نے کہا ان کا قول مقبول نہیں ہوسکتا کیوں کہ وہ خود مدعی ہیں ہاں ان سے آپ گواہ مانگئے اگروہ گواہ پیش کردیں تو آپ ان کے موافق فیصلہ کردیجئےچنانچہ حضرت معاویہ نے ان کوبلوایامگروہ کوئی گواہ پیش نہ کرسکے (مجبورہوکر)حضرت معاویہ نے اخطل کوچھوڑدیا ان عبدالرحمٰن کی وفات ۱۰۴ھ میں ہوئی یہ خلیفہ کا قول ہے۔ ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابونعیم نے لکھاہے۔