تیغ علی، شیخ المشائخ الحاج ،شاہ محمد
تحریر: سیّد شاہ
شمیم الدین احمد منعمی۔
اسمِ گرامی: محمد تیغ علی۔
القاب: شیخ المشائخ، الحاج، شاہ
ولادت:
حضرت شیخ المشائخ الحاج شاہ محمد تیغ علی قادری مجددی
آبادانی مظفر پوری قصبہ گوریارہ ضلع مظفر پور میں 1300 ھ میں پیدا ہوئے۔
تعلیم:
کم سنی ہی سے آپ کے شب وروز لہوولعب سے پاک اور غیر معمولی
گزرتے تھے۔ آپ کی والدۂ ماجدہ عہدِ طفلی میں پیش آنے والے کئی غیر معمولی واقعات
کی راویہ ہیں۔ غرض کہ عہدِ شعور کی آمد سے قبل ہی آپ کی ولایت کے چرچے ہونے لگے
تھے۔ ابتدائی علم کے حصول کے بعد جن اساتذہ کی صحبت میں آپ نے علومِ درسیہ حاصل
فرمایا، ان میں حضرت مولانا شاہ سبحان علی کا نام سب سے اہم ہے۔ بعدہ مدرسۂ عالیہ
کلکتہ میں داخل ہوکر طلب علم فرمایا۔ اسی دوران مردانِ خدا کے دیدار اور ان کی
خدمت کا شرف حاصل کرنے کا شوق اُبھرا۔ چنانچہ حضرت مولانا شاہ سمیع احمد مونگیری
قادری آبادانی کا چرچا سن کر کمال شوق کے ساتھ حاضرِ خدمت ہوئے۔ حضرت مولانا سمیع
احمد، حضرت حافظ شاہ فرید الدین آروی قادری آبادانی کے مرید ومجاز تھے۔ آپ کا وطن
خان پور ضلع مونگیر تھا ۔ اس زمانے میں آپ کا قیام بڑی پاڑہ کلکتہ میں تھا۔
بیعت:
مشائخ سلسلۂ عالیہ قادریہ میں حضرت صوفی شاہ آبادانی
سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ (م۱۸؍ربیع الثانی ۱۲۲۰ ھ) کی شخصیت بھی کافی اہمیت کی
حامل ہے۔ اواخر بارھویں صدی ہجری سے اوائل تیرھویں صدی ہجری تک آپ کا فیضان شمالی
ہند میں عام تھا۔ حضرت سیّدنا شیخ احمد سرہندی المعروف بہ مجددالف ثانی کے
بعد آپ ساتویں پشت میں تھے۔ آپ ہی کے نام ِنامی سے منسوب ہوکر آپ کا سلسلہ سلسلۂ
قادریہ مجددیہ آبادانیہ کہلاتا ہے۔ حضرت صوفی شاہ آبادانی کو اپنے مرشد حضرت صوفی
شاہ محمد زکریا سے شیخ سرہندی کے تمام سلاسل کی اجازت حاصل تھی۔ آپ کے احوال
ومناقب میں بزبانِ فارسی رسالہ نور القلوب (قلمی) بہت خوب ہے۔
سلسلۂ قادریہ مجددیہ آبادانیہ کا فیضان جس ذاتِ بابرکات سے
سب سے زیادہ ہوا وہ حضرت صوفی شاہ آبادانی کی چھٹی پشت میں حضرت شیخ المشائخ الحاج
شاہ محمد تیغ علی قادری مجددی آبادانی مظفر پوری کی ذات والا صفات ہے۔ سلسلۂ
آبادانیہ کے کئی شیوخ سے حضرت تیغ علی کو فیض پہنچا تھا اور اجازتِ سلسلہ حاصل
تھی۔ غرض کہ اس دور میں اس سلسلے کے شیخ المشائخ اور سر دفتر حضرت موصوف ہی تھے۔
حضرت شاہ محمد تیغ علی کو حضرت مولانا سمیع احمد مونگیری کے
دیدار و حصول نیاز سے قلبی اطمینان حاصل ہوا۔ یہاں تک کہ انہیں کے دست حق پرست پر
سلسلۂ قادریہ مجددیہ آبادانیہ میں بیعت ہوگئے۔ روزانہ اپنی قیام گاہ سے چلتے اور
چار میل کی دوری طےکر کے اپنے پیر دستگیر کی خدمت میں باریاب ہوتے اوربھرپور
استفادہ فرماتے اور ریاضات و مجاہدات میں کافی
محنت اور لگن کے ساتھ مصروف رہتے، لیکن تکمیل سے قبل ہی حضرت مولانا سمیع احمد کو
اپنے وطن مونگیر کو لوٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے خلیفۂ اعظم حضرت
مولا علی لال گنجوی کے سپرد آپ کو فرمایا۔ حضرت تیغ علی حضرت مولا علی لال گنجوی
کی نگہداشت میں 14 سال تک مصروفِ ریاضات وعبادات رہے یہاں تک کہ ۲۰؍ جمادی الآخرہ ۱۳۴۱
ھ کو خان پور ضلع مونگیر میں حضرت مولانا سمیع احمد مونگیری کے آستانے پر حضرت
مولاعلی لال گنجوی نے آپ کو سندِ خلافت واجازت سے نوازا۔
تکمیلِ طریقت کے بعد ۱۳۴۹ ھ ہی میں آپ نے سفر سیاحت کے لیے کمر
باندھی اور سب سے پہلے آرہ میں اپنے دادا پیر حضرت حافظ شاہ فریدالدین کے مزار پر
حاضر ہوئے اور وہیں حضرت حافظ شاہ محمد صاحب (سجادہ نشین حضرت فریدالدین) نے بھی
سلسلۂ قادریہ مجددیہ آبادانیہ فریدیہ کی اجازت آپ کو عطا فرمائی۔ وہاں سے روانہ
ہوکر آپ پھلواری شریف میں واقع خانقاہ مجیبیہ پہنچے اور حضرت شاہ مجیب اللہ
قادری کے آستانۂ پُر انوار پر شرفِ حاضری حاصل کیا اور دو روز خانقاہ میں قیام
پذیر رہے۔ اسی دوران ۲۸؍ رجب المرجب۱۳۴۹ ھ کو زیبِ سجادہ حضرت مولانا شاہ محی
الدین قادری مجیبی پھلواروی نے آپ کو خرقۂ خلافت سے نوازا اور سلسلۂ قادریہ وارثیہ
وعمادیہ جنیدیہ وسلسلۂ چشتیہ نظامیہ اورصابریہ قلندریہ کی اجازت مرحمت
فرمائی۔ وہاں سے رخصت ہوکرا پنے وطن گوریارہ پہنچے اور یہیں حضرت شاہ فرید الدین
آروی کے خلیفہ ومجاز حضرت حکیم شاہ جلال الدین جڑہوی کی خدمت کا موقع ملا۔ حصولِ
نیاز کے بعد حاصل کردہ خلافت نامے ان کی خدمت میں پیش کردیے۔ حضرت حکیم صاحب نے
بھی اپنے شیخ سے حاصل کردہ آبادانیہ سلاسل کی اجازت مرحمت فرمائی اور دعاؤں سے
نوازا۔ حضرت شاہ محمد تیغ علی قدس سرہ کی خانقاہ میں مریدوں کو حضرت حکیم شاہ جلال
الدین جڑہوی کے واسطے والا ہی شجرہ زیادہ تر دیا جاتا ہے اور یہی واسطہ زیادہ رائج
ہے۔
گوریارہ سے حضرت تیغ علی نے قصبہ سرکانہی میں ہجرت فرمائی ۔
یہیں آپ کی مرضی کے مطابق ایک خانقاہ کی تعمیر عمل میں آئی جو خانقاہ آبادانیہ کے
نام سے مشہورو معروف ہے۔ خانقاہ کی تعمیر کے بعد حضرت کی دور بین نگاہوں نے ایک
اشد ضرورت کی طرف توجہ فرمائی،یعنی ۱۳۲۶ ھ میں خودا پنے ہاتھوں سے یہاں ایک
مدرسے کی بنیاد ڈالی۔ مدرسہ وخانقاہ کے ساتھ ساتھ آپ کا وجود مسعود غرض کہ ایک
ایسا خزانہ سرکارنہی شریف کے غیر معروف قصبے میں جمع ہوگیا کہ اس کی شہرت خوشبو و
فاصلوں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی دور دور تک پھیل گئی اور طالبانِ شریعت و طریقت کے
ساتھ ساتھ صوفی باصفا کو دیکھنے کے لیے ترستی ہوئی آنکھیں بھی سرکانہی کی طرف
متوجہ ہو گئیں۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ ایک عالم سیراب ہوا۔
سیرت:
چودھوں صدی ہجری میں حضرت شاہ محمد تیغ علی قادری کی ذاتِ
والا صفات متقدمین صوفیا کی یاد تازہ کراتی ہے۔ لاگ لپٹ ’’ریاو تصنع‘‘ جاہ وحشم
اور طمطراق سے کوسوں دور سادگی، عاجزی، انکساری اور فروتنی کا دھنی یہ فقیر اپنی
مثال آپ تھا۔ ہر ہر قدم پر سنّتِ نبویﷺ کی پیروی کا التزام فرماتے۔ آپ کا اخلاق
دوسروں کو فوراً گرویدہ بنا لیتا۔ عفو و
درگزر کا مادّہ آپ کے اندر بدرجۂ اتم موجود تھا۔ کبھی کسی کو زیادہ دیر معتوب نہ
فرماتے۔ اگر کسی سے ناراض ہوجاتے تو صرف اتنا فرماتے، بابو تونے یہ کیا کیا؟ یہ
کہنے کے بعد اس کو آزردہ نہ ہونے دیتے۔ روزانہ دس بجے دن کو غسل سے فارغ ہوکر
بالالتزام قرآنِ پاک کی تلاوت فرماتے اور اَسرارومعانی سے حاضرین کو ان کے حسبِ
استعداد نوازتے۔ دعا فرماتے تو اکثر وبیشتر یہ شعر زبانِ مبارک پر ہوتا:
راستی موجبِ رضائے خداست
کس نہ دیدم کہ گم شد ازرہ راست
نعتِ پاک ذوق وشوق کے ساتھ سنتے اور وجد فرماتے۔ مولانا
رومؔ، چراغ دہلوی، خسروؔ،امداد ہدفؔ اور فاضل بریلوی کے اَشعار آپ کے پسندیدہ تھے۔
۱۳۲۷ ھ میں آپ
نے حرمین شریفین کے حج کا بھی شرف حاصل کیا۔ اس مبارک سفر میں کافی لوگ آپ سے فیض یاب
ہوئے۔ آپ کا حلقۂ مریدین و معتقدین کافی وسیع تھا۔ بہاروبنگال میں بطورِ خصوص آپ
کے مریدین کثیر تعداد میں ہیں۔ ان میں خلفا، علما وفضلا کی تعداد کثیر ہے۔
وصال:
اس عظیم اور مثالی کردار والی شخصیت نے تقریباً ۷۸؍ سال کی
عمر میں ۲۹؍ ربیع الاوّل ۱۳۷۸ ھ کو جب کہ ماہِ ربیع الآخر کا چاند نظر آیا
اس دار فانی سے کوچ فرمایا۔ خانقاہ آبادانیہ سرکانہی شریف ضلع مظفر
پور سے متصل مقبرہ میں اپنی والدہ ماجدہ اور اہلیہ صاحبہ کے ساتھ آپ کا بارونق
مزار مرجع خلائق ہے۔
آپ کی ایک بیاض اَبواب القرآن کے نام سے ملتی ہے جس میں
مختلف قرآنی آیات دستِ خاص کی نوشتہ یا حسبِ حکم نوشتہ ہیں۔ ادعیہ و نسخہ جات کے
اس مجموعے کی زیارت اس خاکسار نے کی ہے۔ آپ کے ارشاداتِ عالیہ اختصار میں جامعیت
کی بہار رکھتے ہیں۔ چند ارشادات بطورِ نمونہ نقل کرتا ہوں:
·
کمالِ شریعت کا نام طریقت ہے۔
·
سب سے پہلے جو گناہ وجود میں آیا
وہ حسد ہے۔
·
صبر وشکر سالک کے لیے دولتِ
لازوال ہے۔
·
عبادت اپنی شناخت کا آئینہ ہے، جب
تک کہ آئینہ عبادت کے صیقل سے صاف نہ کرلیا معرفتِ نفس محال ہے۔
آپ کے بعد سجادہ پر آپ کے ہمشیر زادہ اور خلیفہ حضرت شاہ محمد
ابراہیم قادری تیغی (م ۱۱؍جمادی الآخرہ ۱۳۹۲ ھ) جلوہ افروز ہوئے۔ ان کے بعد یہ
خانوادہ آپ کے دونوں صاحبزادگان مولانا شاہ علی احمد جید القادری اور شاہ محمد علی
قادری سے آباد و روشن ہے۔
حضرت شاہ تیغ علی پر ایک تفصیلی کتاب مع احوالِ پیران بنام
’’اَنوار صوفیہ‘‘ شائع ہو چکی ہے۔ حضرت سےمختلف مواقع پر جن کرامات کا ظہور ہوا، اُن
کا تفصیلی ذکر ’’مظاہر قطب الانام‘‘ کے
نام سے طبع ہو چکا ہے۔
حواشی:
صوفی شاہ آبادانی عن صوفی میر
محمد زکریا عن صوفی میر محمد سندھی عن صوفی شاہ محمد قریشی عباسی لاہوری عن صوفی
شاہ محمد خان لودھی عن بابا پیر محمد خان لودھی عن خواجہ آدم الشریف الحسنی بنوری
عن حضرت مجدد الف ثانی۔
حضرت تیغ علی عن مولانا سمیع
احمد مونگیری عن حافظ فرید الدین آروی عن حاجی شاہ دیدار علی خان غازی پوری عن شاہ
عبدالعلیم لوہاری عن حافظ احسان علی پاک پٹنی عن صوفی شاہ آبادانی۔