آئیں بہاریں برسے جھالے
نغمہ سرا ہیں گلشن والے
شاہد گل کا جوبن اُمڈا
دل کو پڑے ہیں جان کے لالے
ابرِ بہاری جم کر برسا
خوب چڑھے ہیں ندّی نالے
کوئل اپنی کُوک میں بولی
آئے بادل کالے کالے
حسنِ شباب ہے لالہ و گل پر
قہر ہیں اُٹھتے جوبن والے
پھیلی ہیں گلشن میں ضیائیں
شمع و لگن ہیں سرو اور تھالے
عارضِ گل سے پردہ اٹھا
بلبلِ مضطر دل کو سنبھالے
جوشِ طبیعت روکے تھامے
شوقِ رُؤیت دیکھے بھالے
سن کے بہار کی آمد آمد
ہوش سے باہر ہیں متوالے
بوٹے گل رویانِ کم سن
پیارے پیارے بھولے بھالے
فیضِ اَبر بہاری پہنچا
پودے پودے تھالے تھالے
جمع ہیں عقد عروسِ گل میں
سب رنگین طبیعت والے
بانٹتی ہے نیرنگیِ موسم
بزم میں سرخ و سبز دو شالے
نکہت آئی عطر لگانے
پھول نے ہار گلوں میں ڈالے
پنکھے جھلنے والی نسیمیں
بادل پانی دینے والے
گاتے ہیں مل مل کے عنادل
سہرا مبارک ہو ہریالے
ایسی فصل میں جوشِ طبیعت
کس سے سنبھلے کون سنبھالے
آنکھ نے کیا کیا دل کو اُبھارا
تارِ نظر نے ڈورے ڈالے
کیسا موسم پیارا موسم
اُس پر نورِ سحر کے اُجالے
شمعوں کے چہروں پہ سپیدی
تارے رُخصت ہونے والے
نکلے اپنے گھروں سے مسافر
گھر بھر کر کے خدا کے حوالے
آئی کان میں بانگِ مؤذن
چونکے مسجد جانے والے
پہلے کچھ احباب سے مل کر
ہجر کی شب کے رونے والے
کوئی کسی سے طالب رخصت
درد انگیز کسی کے نالے
عشق سراپا عجز و زاری
حسن و نازش رد سوالے
خواب ہوئے آنکھوں سے رُخصت
نیند سے چونکے سونے والے
ساقی نے میخانہ کھولا
سائل آئے جھولی ڈالے
دیکھیے بادہ کشوں کی آمد
لب پہ دعا ہاتھوں میں پیالے
خواہش مے میں سب کی زباں پر
تیرے صدقے اے متوالے
داتا آج پیالا بھر دے
ہم سے فقیروں کی بھی دعا لے
خشکی لب سے دم ہے لبوں پر
پیارے کب تک ٹالے بالے
شوق کو ہم بہلائیں کہاں تک
لا اے پینے پلانے والے
گہرا سا اک جام عطا کر
جھوم کر آئیں کیف نرالے
رنگ پہ پھر آ جائیں ترنگیں
لطف سُرور سے رُوح مزا لے
لغزشِ پا کے ہاتھوں مے کش
خوب مزے گر گر کر اُٹھا لے
جب ہوں قائل تیزیِ مے کے
ہاتھ میں اُڑ کر آئیں پیالے
کہتے اُٹھے ہر رِند سے بادل
دل کو بڑھائے غم کو گھٹا لے
پینا کیسا پلانا کیسا
آج تو حوضِ مے میں نہا لے
ہاں اے لغزشِ پا کے شیدا
گرتے گرتے لطف اُٹھا لے
بادہ و حسنِ دل کش گلشن
بے خود ہیں سب دیکھنے والے
ایسی فصل میں بخت نے ہم کو
ڈال دیا صیاد کے پالے
سوزِ فراق نے آگ لگا دی
آتش گل نے چھالے ڈالے
ہجر میں بارش ابرِ غضب ہے
پڑتے ہیں زخمی دل پر بھالے
آگ لگاؤ ایسے مینہ کو
جلتے ہیں اور بھی جلنے والے
فصل بہاراں صحن گلستاں
کوے رقیب و ماہ جمالے
اے تری قدرت دیدۂ تر کو
آنکھیں دکھائیں ندّی نالے
سوزِ جدائی کس کو سناؤں
پڑ گئے کام و زباں میں چھالے
کنج قفس آلامِ جدائی
گوشۂ عزلت ماہ خیالے
آئے ترس اس دکھ پر کس کو
مجھ بے کس کی کون دعا لے
پنجۂ وحشت تو نہ ہوا شل
زخم ہوئے چھل چھل کر آلے
جو کچھ گزری جو کچھ بیتی
کس سے کہیں دُکھ بھرنے والے
اے ظالم اے دردِ جدائی
اب تو پڑے ہیں تیرے پالے
جان غضب میں ہے ترے ہاتھوں
دل میں چٹکی لینے والے
ناؤ میں خاک کہاں سے آئی
کھانا ہے تو ظالم کھا لے
تیرے بس میں قید ہوئے ہیں
جتنا ستایا جائے ستا لے
ملدے ہونٹوں کو آہ و فغاں پر
خاموشی کو باتیں سنا لے
اُن سے کریں گے تیری شکایت
ہم ہیں جن کے ناز کے پالے
سب کے حامی سب کے یاور
جان کی راحت دل کے اُجالے
عرض کروں اب مطلع ایسا
دل سے جو خارِ الم کو نکالے
ذوقِ نعت