/ Friday, 14 March,2025


آہ بدرِ اولیاء جاتا رہا





آہ! بدرِ اولیا جاتا رہا!
تاجْدارِ اصفیاء جاتا رہا

اہلِ حق کا پیشوا جاتا رہا
سُنّیوں کا مقتدا جاتا رہا

واصفِ شاہِ دَنٰی جاتا رہا!
عاشقِ غوث الوریٰ جاتا رہا

کیا مناقب ہوں بیاں مجھ سے بھلا
رہبرِ راہِ ہدا جاتا رہا

اہلِ سنّت اہلِ حق ، اہلِ نظر
کا معظّم رہ نما، جاتا رہا

جس سے پر رونق تھا اسلامی چمن
وہ جمالِ اولیاء جاتا رہا

تھا ضیاءُ الدین احمد نامِ پاک
مظہرِ احمد رضا جاتا رہا

نام میں ’’الشاہ مدنی‘‘ جب مِلا
سالِ رحلت مل گیا جاتا رہا

چار ذی الحجہ تھی روزِ جمعہ تھا
سوئے جنّت با خُدا جاتا رہا

جس نے عالم کو منوّر کردیا!
آہ! وہ شمسِ رضا جاتا رہا

ہے دُرودِ رضویّہ میں دیکھ لو
اُس کی رحلت کا پتا جاتا رہا

یعنی
اَللہُ رَبُّ مُحَمَّدٍ صَلّٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَا نَحْنُ عِبَادِ مُحَمَّدٍ صَلّٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَا.

مسجدِ نبوی سے سُن لی جب اذاں
کرنے جمعے کو ادا جاتا رہا

ملنے محبوبِ خُدا سے بالقیں!
جب بُلاوا آ گیا جاتا رہا

ربِّ کعبہ کی حضوری کےلیے!
اس جہاں سے دائما جاتا رہا

سوئے فردوسِ بریں کلمہ شریف
پڑھتے پڑھتے با خُدا جاتا رہا

اہلِ بیتِ پاک کے قدموں کا وُہ
بوسہ لینے با خُدا جاتا رہا

بے ٹھکانوں کا ٹھکانہ جس کا دَر
بے کسوں کا آسرا جاتا رہا

مَوْتِ عَالِمْ مَوْتِ عَالَمْ ہے حدیث
زندگی کا اب مزہ جاتا رہا

فضلِ رَحمٰں عالِم ذی شان کو
چھوڑ کر پانی ضیا جاتا رہا

اے اماؔنت! بس یہی تاریخ ہے
’’نَآئِبُ الشَّاہِ رَضَا‘‘ (۱۴۰۱ھ) جاتا رہا