/ Thursday, 13 March,2025


آج جو ناز سے اٹھلاتی ہوئی آتی ہے





آتش شوق

آج جو ناز سے اٹھلاتی ہوئی آتی ہے
ہو نہ ہو یار کا پیغام صبا لاتی ہے
ماند پڑجاتی ہے تنویر مہ و انجم کی
ان کی تصویر جب آنکھوں میں سما جاتی ہے
آپ آتے ہیں جو بالیں پہ نقاب افگندہ
اس کے معنی ہیں کہ در پردہ قضا آتی ہے
چھین تو لیتی ہے دل ابر بہاری کی ادا
آپ کی یاد مگر اور بھی تڑپاتی ہے
مختصر داستاں مجھ تلخ نوا کی یہ ہے
میری ہستی بھی مرے حال پہ جھنجلاتی ہے
دل کی تسکین تو ہو جاتی ہے روتے روتے
آتش شوق مگر اور بھڑک جاتی ہے
کتنا تاریک ہے پہلو شب تنہائی کا
ان کے ہوتے بھی طبیعت مری گھبراتی ہے
یہ تو سمجھاؤ کہ کیا دیکھنے والے سمجھیں
ذکر ہوتا ہے مرا تم کو حیا آتی ہے
آگ لگ جاتی ہے دامانِ تحمّل میں خلیؔل
عشق کے نام سے دنیا مری تھراتی ہے