آج جو ناز سے اٹھلاتی ہوئی آتی ہے
ہو نہ ہو یار کا پیغام صبا لاتی ہے
ماند پڑجاتی ہے تنویر مہ و انجم کی
ان کی تصویر جب آنکھوں میں سما جاتی ہے
آپ آتے ہیں جو بالیں پہ نقاب افگندہ
اس کے معنی ہیں کہ در پردہ قضا آتی ہے
چھین تو لیتی ہے دل ابر بہاری کی ادا
آپ کی یاد مگر اور بھی تڑپاتی ہے
مختصر داستاں مجھ تلخ نوا کی یہ ہے
میری ہستی بھی مرے حال پہ جھنجلاتی ہے
دل کی تسکین تو ہو جاتی ہے روتے روتے
آتش شوق مگر اور بھڑک جاتی ہے
کتنا تاریک ہے پہلو شب تنہائی کا
ان کے ہوتے بھی طبیعت مری گھبراتی ہے
یہ تو سمجھاؤ کہ کیا دیکھنے والے سمجھیں
ذکر ہوتا ہے مرا تم کو حیا آتی ہے
آگ لگ جاتی ہے دامانِ تحمّل میں خلیؔل
عشق کے نام سے دنیا مری تھراتی ہے