آجاؤ کہ دل کی دنیا بھی فرودس بداماں ہوجائے
ہر داغ فروزاں ہوجائے ہر زخم گلستاں ہوجائے
اے ہوش و خرد والو دیکھو کیوں دشمن جاں میں اس کوکہوں
جو برق نگاہ ہوش رُبا چمکے تو رگِ جاں ہوجائے
جو در در ہین فرقت ہو اس درد کا درماں مت ڈھونڈو
کیا اچھا نہیں ہے چارہ گرو خود درد ہی درماں ہوجائے
عرفان خودی کی وہ منزل عرفان خدا کی منزل ہے
خود اپنی ادا جس منزل میں مقصود دل و جاں ہوجائے
اک ہم ہیں نچوڑے ہیں جس نے پھولوں کے تبسم سے آنسو
اک تم ہو ہنسی آتی ہے تمہیں جب کوئی پریشاں ہوجائے
اللہ رے اک مشت خاکی یہ وسعت امکاں لے ڈوبے
انسان خدا جانے کیا ہوگر واقف انساں ہوجائے
داناؤ! سرشت بخیہ گری ہے وجہ نمو و قدر جنوں
کیا لطف جنوں ساری دنیا گر چاک گریباں ہوجائے
بدمست گھٹاؤیہ تو کہو اس وقت ہمیں کیا لازم ہے
جب ساغر عارض موج میں ہو جب زلف پریشاں ہوجائے
پھر جاکے کہیں ہم رنگ شفق ہوگی یہ بیاض خون چمن
پہلے تویم خون دل کا طوفان پر افشاں ہوجائے
اپنے ہی چمن کی بات نہیں اخؔتر وہ جہاں بھی جا پہونچیں
ہر شاخ خوشی سے جھوم اٹھے ہر پھول غزل خواں ہو جائے