آنکھ میری جو ڈبڈباتی ہے
آبرو ضبطِ غم کی جاتی ہے
اک مسیحا کی بات جاتی ہے
یعنی پھر موت مسکراتی ہے
یوں نہ آؤ نقاب ڈالے ہوئے
آرزو اور تلملاتی ہے
زندگی بھی حباب آسا سہی
فکر فردا بھی کھائے جاتی ہے
غنچہ و گل کی تاک میں ہے خزاں
شور بلبل عبث مچاتی ہے
ہے عدم بھی وجود کی تمہید
جان جاتی ہے موت آتی ہے
بوالہوس دشت سے نکل جائیں
میری وحشت قدم بڑھاتی ہے
میرے مالک لگا دے ساحل سے
کشتئ عمر ڈگمگاتی ہے
کوئی ہمدم نہیں شبِ غم کا
شمعِ امید ٹمٹماتی ہے
ہے سراپا فریب گو دنیا
دل مگر کس قدر لبھاتی ہے
پھول برسا نہ یوں سخن کے خلیؔل
غنچۂ و گل کو شرم آتی ہے