آپ کی زلفِ گرہ گیر سے ڈر لگتا ہے
مجھ کو پیچ و خم تقدیر سے ڈر لگتا ہے
آمد صبح پیام شبِ دیجورنہ ہو؟
مجھ کو خورشید کی تنویر ڈر لگتا ہے
کم نگاہی پہ کہیں حرف نہ آئے اس کی
اپنے اس نالۂ شبگیر سے ڈر لگتا ہے
ہاں اُسی راز کا اخفاء ہے وبال ہستی
جس حسیں راز کی تشہیر سے ڈر لگتا ہے
مٹ نہ جائے کہیں دنیا سے نشانِ ایماں
آج کے فتنۂ تکفیر سے ڈر لگتا ہے
ہاتھ پر ہاتھ دھرے شکوۂ قسمت کب تک
کیا تجھے خوبئ تدبیر سے ڈر لگتا ہے
جس سے قربت ہے وہی دور نظر آتا ہے
اتحاد شکر و شیر سے ڈر لگتا ہے
مجھ کو اس خواب سے کیوں اتنی خوشی ہے یارب
جس حسیں خواب کی تعبیر سے ڈر لگتا ہے
اے جنوں زندگئ خضر میسر ہو تجھے
کب مجھے پاؤں کی زنجیر سے ڈر لگتا ہے
عشق نے ان کے عطا کی ہے یہ وحشت اخؔتر
مجھ کو خود اپنی ہی تصویر سے ڈر لگتا ہے