آتے ہیں مجھے یاد پھر ایامِ محبت
وہ صبح محبت وہ مری شامِ محبت
دینا ہے تو دید و کوئی دشنامِ محبت
دل ہو بھی چکا خوگرِ آلامِ محبت
اے دل یہ تری جرأت اقدام محبت
تو اور ہوسِ لذّت دشنامِ محبت
اٹھی ہیں کسی شاہد رعنا کی نگاہیں
روشن ہیں جو دیوار و در و بامِ محبت
خود کعبۂ عشاق بڑھے بہرِ زیارت
باندھے ہوئے نکلا ہوں میں احرامِ محبت
آسودۂ محفل ہیں وہ سمجھیں گے بھلا کیا
کس طرح گزرتی ہے مری شامِ محبت
اے دوست محبت کی حقیقت بھی ہے کوئی
دیتے ہیں مجھے لوگ جو الزامِ محبت
اب پوچھ رہے ہو کہ یہ تھا کشتۂ غم کون
باقی ہے کوئی اور بھی دشنامِ محبت
آنکھوں میں نمی ہے تو یہ دل بہہ کے رہے گا
آغاز سے کھل جاتا ہے انجامِ محبت
اللہ مُہَوّس کی نگاہوں سے بچائے
بغداد سے ملتا ہے مجھے جامِ محبت
تو کیا ہے خلیؔل، ان کا مگر یہ بھی کرم ہے
کہتے ہیں تجھے بندۂ بے دامِ محبت