روح کی فریاد
اے مری جان تمنا مری اشعار کی روح
رشک خوشبوئے گلاب و تن گلزار کی روح
اس چمکتے ہوئے خورشید کے انوار کی روح
تابش قلب و جگر گرمئی افکار کی روح
تو جو چاہے تو بدل جائے دل صبر شکن
اور وہ دینے لگے درس شکیب آرائی
ان عنادوں کی چٹانوں کی حقیقت کیا ہے
پیکر کوہ بھی ہوجائے مثال رائی
آج ہے بغض کی شمشیر کی جھنکار جہاں
ہاں وہیں مہر و محبت کی بجے شہنائی
فرش کے ذروں میں پیدا ہو ستاروں کا جمال
پھول بھی رشک کریں دیکھ کے خاروں کا جمال
غمزۂ ناز کا اعجاز زمانہ دیکھے
خاطر سنگ صفت پھول کی پتی سے کٹے
خوگر رحم ہوں ہر بغض و عداوت والے
دشمن و دوست کے ملجائیں محبت میں گلے
ہوئے مسبوق عدم دم میں شبستانِ دروغ
ہر طرف صدق کے روشن ہوں ضیا پاش دیے
ہر طرف مہر و محبت کی بجے شہنائی
بول اٹھیں اہل چمن باد بہاراں آئی
تیری مرضی بتا خوموش رہے گی کب تک
یہ شرافت بھلا دشنام سہے گی کب تک
انتہا بھی ہے زمانے کے تشدد کی کوئی؟
ظلم کے پاؤں میں بیڑی نہ پڑیگی کب تک
اخؔتر خستہ جگر کی ہے یہ فریاد حضور
اک نگاہ کرم و لطف تو ایسی کردے