ہندوستان کے مسلمانوں سے خطاب
اے مسلماں صیددام خواب غفلت ہوشیار
وقت کہتا ہے کہ لے ہاتھوں میں اپنے ذوالفقار
اٹھ کہ تجھ کو ہے بدلنا گردشِ لیل و نہار
اے محمدﷺ کے سپاہی دین حق کے جاں نثار
تھا کبھی تو باعث نقش و نگار گلستاں
آج کیوں ہے تنگ گلشن اور عار گلستاں
تیری غفلت نے کیا ہے باطلوں کا سر بلند
تیری گردن میں حمائل ہے غلامی کی کمند
تیری ہستی بن گئی ہے تختۂ مشق گزند
پھر رہا ہے آج تو بن کر سراپا درد مند
لرزہ براندام جو رہتے تھے تیرے نام سے
تھر تھراتا آج تو ہے ان کے چاپ گام سے
ہاں تری یہ خانہ جنگی طاقت باطل ہے آج
اللہ اللہ بھائی کا خود بھائی ہی قاتل ہے آج
سنگدل اپنوں کے حق میں کیوں مثال سل ہے آج
دشمنوں کے درمیاں لیکن بہت بزدل ہے آج
الاماں صد الاماں تم اور خون اتحاد
پیکر رحم و کرم اور مائل بغض و عناد
کیا ہوئی تیری اخوت اور شجاعت کیا ہوئی
کیا ہوئی تیری صداقت اور سخاوت کیا ہوئی
اپنے غیروں سے بھی وہ تیری محبت کیا ہوئی
کیا ہوا ذوق شہادت اور عبادت کیا ہوئی
تھے تمہیں جس نے لگایا نعرۂ توحید کو
زیر خنجر گنگنایا نغمۂ توحید کو
جذبۂ طارق نہ تجھ میں ہے نہ جوش خالدی
ہے کہاں محمود غزنی کا وہ عزم بت زنی
دیکھ کر یہ تیری پسپائی یہ تیری بزدلی
قبر میں کیا مضطرب ہوگی نہ روح بن علی
باز آ غفلت سے اپنی غافل غفلت پسند
تیری گردن میں رہے گی تاکے محکومی کمند
خود سے آخر یہ تیری نا آشنائی کب تلک؟
دام غفلت سے بھلا ہوگی رہائی کب تلک؟
تیرے لب پہ اپنے غیروں سے دہائی کب تلک؟
شوکت مسلم کی ہوگی رونمائی کب تلک؟
روح عالمگیر کا کب تک مٹے کا اضطراب
کب تلک آئے گا تیری زندگی میں انقلاب