/ Thursday, 13 March,2025


اے دل یہ بیاں ہے قابل سیر





اے دل یہ بیاں ہے قابل سیر
فرماتے ہیں حضرت ابوالخیر

ہیں اور میرے ساتھ کچھ مکرم
حاضر تھے حضورِ غوثِ اعظم

فرمانے لگے جنابِ والا
مقبول حضور حق تعالیٰ

ہم آج کہ بر سرِ عطا ہیں
اور مظہرِ رحمتِ خدا ہیں

جو کچھ مانگو عطا کریں گے
حاجت سب کی روا کریں گے

سن کر یہ ابو سعید اُٹھے
یوں پیش جنابِ شیخ اُٹھے

یہ خواہش دل ہے تاجدار آج
اِمداد ہو ترک اختیار آج

یعنی کہ فقط یہ چاہتا ہوں
میں اپنی طرف سے کچھ نہ چاہوں

پھر حضرت ابن قاید اُٹھ کر
گویا ہوئے اس طرح کہ سرور

ہے میری یہی مراد و حاجت
پاؤں میں مجاہدہ کی قوت

بزاز عمر نے عرض کی یہ
یا شاہ ہے مطلب دلی یہ

ہو خوفِ خدا مجھے عنایت
اور صدق و صفا عطا ہو حضرت

پھر بولے حَسَن کہ شاہِ عالم
یہ حال میرا فزوں ہو ہر دم

بولے یہ جمیل مجھ کو حضرت
حفظِ اوقات کی ہے حاجت

پھر بوالبرکات نے کہا یوں
محبوب ہو عشق مانگتا ہوں

پھر میں نے یہ عرض کی کہ سرکار
بندہ کو وہ معرفت ہے درکار

فارق رہے واردات میں جو
معلوم رہے یہ حال مجھ کو

رحمن کی طرف سے تھا یہ وارد
شیطاں کی طرف سے تھا یہ وارد

پھر شیخ خلیل حاضر آئے
سائل ہوئے جاہِ قطبیت کے

پائی جو سوال سن کے فرصت
فرمائی جواب میں یہ آیت

کُلاًّ نُّمِدُّ ھٰؤُلآَئِ وھٰؤلاَئِ مِِنْ عَطَآئِ رَبِّکَ وَ ماَ کَانَ عَطَآئُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًاo
(ہم سب کو مدد دیتے ہیں اِن کو بھی اور اُن کو بھی تمہارے ربّ کی عطا سے اور تمہارے ربّ
کی عطا پر روک نہیں)۔ [ پارہ 15، بنی اسرائیل:20]

یعنی کہ ہوا یہ سب سے ارشاد
ہم کرتے ہیں فضلِ ربّ سے امداد

رُکتی ہے کہیں عطا خدا کی
کچھ حد نہیں فضلِ کبریا کی

بوالخیر یہ کہتے ہیں قسم سے
مطلب جو طلب کیے تھے پائے

ہے عام عطیہ شاہ باذِل
ہیہات گدا کدھر ہے غافل

ہاں تھام لے دامنِ معلّٰی
سر پاؤں پہ رکھ کے گود پھیلا

محتاج کو آج تاج دیں گے
ٹھہری ہے جو مانگی آج دیں گے

شاہا مری صرف یہ صدا ہے
منگتا ترا تجھ کو مانگتا ہے

بھٹکا پھرے کیوں گمان میرا
تو میرا تو سب جہان میرا

اے دل میں نثار فیض باری
کیا بزم دکھائی پیاری پیاری

ہے بیچ میں اک کریم باذِل
گھیرے ہوئے ہر طرف سے سائل

پروانوں میں شمع ہے نمودار
یا تاروں میں چاند ہے ضیا بار

محبوب ہے اپنے مائلوں میں
یا پھول ہزار بلبلوں میں

ذرّوں میں ہے مہر کی تجلّی
گِھر آئے ہیں آئنہ پہ طوطی

ہر عکس ہزار آن کی جاں
ایمان کی جاں، جان کی جاں

کہتا ہوں یہ حسنؔ کی زبانی
ہم آج ہیں شرح مَنْ رَاٰنِیْْ(۱)

پردۂ رُخ یہ دُور فرمائیں
کیا بزم! نصیب تک چمک جائیں

ہو چاند چکور بن کے شیدا
سورج کہے ذرّہ ہوں تمہارا

عالم سے نرالی ہیں ادائیں
دل کھینچنے والی ہیں ادائیں

وہ آنکھیں ہیں قابلِ زیارت
ہو جن میں یہ پیاری پیاری صورت

اُس دل کی خوشی کا کیا بیاں ہو
جس میں یہ جمال مہماں ہو

وہ پاؤں ہیں چومنے کے قابل
طے جن سے ہو اُن کے گھر کی منزل

اُن ہاتھوں کا ہے عجب نصیبہ
پایا ہے جنہوں نے دامن اُن کا

ایسوں سے پھرا ہوا ہے جو دل
برگشتہ نصیب ہے وہ غافل

خالی ہے جو اُن کی آرزو سے
وہ آنکھ بھری رہے لہو سے

کہہ دیجیے اُن کے مدعی سے
مایوسِ جناں ہو تو ابھی سے

کم بخت اگر یہی ہیں محتاج
تو کون ہے آج صاحبِ تاج

جو اُن سے ملا، ملا خدا سے
جو اُن سے پھرا، پھرا خدا سے

مردانِ خدا خدا نباشند
لیکن ز خدا جدا نباشند

جو اُن سے پھرے عجیب ہے وہ
بدبخت ہے، بدنصیب ہے وہ

ایسوں کو بُرا کہا ستم گر
ایمان نگل گیا ستم گر

اور تجھ کو ڈکار تک نہ آئی
اُف رے تیرے معدہ کی صفائی

چوپاں سے الگ الگ جو جائے
کب گُرْگ کے شر سے امن پائے

کہتا ہے تُو اُن کو خاک کا ڈھیر
ناپاک تری سمجھ کا ہے پھیر

شیطاں نے تجھے کیا ہے مجنوں
کیا تو نے سنا نہ لاَ یَمُوتُوں

کیا سُوجھی ہے منکر تصرف
اس درجہ ہے بدلگام تو اُف

قدرت اُنہیں دی ہے کبریا نے
مقبول کیا اُنہیں خدا نے

پھر کیوں نہ دکھائیں یہ کرامت
کیا جائے عجب ہے خرقِ عادت

مشرک تجھے شرک سُوجھتا ہے
زندوں کو خدا بنا لیا ہے

اُن زندوں کے آگے رُوپ بدلے
حکام و حکیم سے مدد لے

اُن زندوں کی زندگی سے ہے کور
جا مردے تو خود ہے زندہ درگور

غافل کہ مدد کے معنی کیا ہیں
فاعل ہے خدا یہ واسطہ ہیں

قرآن کی آیت جمیلہ
خود کہتی ہے وَابْتَغُوا الْوَسِیْلَہ(۱)

بیکار ہیں یہ تیری نظر میں
بے زینے چڑھا گرا سقر میں

تعظیم سے اُن کی تُو پھرا ہے
توہین کے بول بولتا ہے

اک اَمر کا تجھ سے ہوں میں سائل
دے اس کا جواب مجھ کو غافل

کس طرح خدا خدا کو جانا
اِسلام کہیں سے مول لایا

خالق نے کیا کلام تجھ سے
یا وحی سنا گئے فرشتے

کیا دین ہے باپ کی کمائی
یا اُمّ شفیقہ ساتھ لائی

گھر میں ترے چرخ سے گرا ہے
یا دین زمین سے اُگا ہے

جن لوگوں سے کل تجھے ملا دین
آج ان کی تُو کر رہا ہے توہین

احسان کا کیا یہی عوض تھا
نیکی کا مگر یہی ہے بدلا

جس گھر کی ملی تجھے غلامی
شایاں نہیں واں نمک حرامی

مقبولوں سے ہے تجھے عداوت
مردود ہے سب تیری عبادت

رہبر سے الگ چلا ہے غافل
کس طرح تجھے ملے گی منزل

خائن ہے تُو حقِ اولیا میں
سچ جان کہ آ گیا بَلا میں

محسن کے بُھلا دیے ہیں احساں
ہیں شومیِ بخت کے یہ ساماں

ایمان کا اب سے لے نہ تُو نام
بدنام کنندۂ نکو نام

جو دامنِ نا خدا کو چھوڑے
منجدھار میں اپنی ناؤ توڑے

نجدی پہ جو سر ُمنڈا کے بیٹھا
اولوں کا بھی کچھ خیال رکھا

ان باتوں کو اپنے دل سے کر دُور
کیوں اُن سے ہوا ہے بے خبر دُور

بس تیرے لیے نجات ہے یہ
سو بات کی ایک بات ہے یہ

ہے خیر حسنؔ کدھر گیا تو
ناپاکوں کے منہ عبث لگا تو

پڑھ کوئی غزل کہ وجد آئے
مستانہ سخن مزے دکھائے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے: طُوْبٰی لِمَنْ رَا ٰنِیْ اَوْ رَایَ مَنْ رَاٰنِیْ وَ اَنَا احَسْرُ عَلٰی مَنْ لَمْ یَرَنِیْ یعنی وہ شخص خوش ہو جائے کہ جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے کو دیکھا یاجس نے میرے دیکھنے والے کے دیکھنے والے کو دیکھا ہو اور میں اس شخص پر حسرت کرتا ہوں کہ جس نے مجھے نہیں دیکھا۔ (بہجۃ الاسرار:191) قادری

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) قرآن پاک میں ہے وابتغوا الیہ الوسیلۃ یعنی اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔( پارہ 06، المائدہ:35)

وسائلِ بخشش