اے ساقیِ مہ لقا کہاں ہے
مے خوار کے دل رُبا کہاں ہے
بڑھ آئی ہیں لب تک آرزوئیں
آنکھوں کو ہیں مَے کی جستجوئیں
محتاج کو بھی کوئی پیالہ
داتا کرے تیرا بول بالا
ہیں آج بڑھے ہوئے اِرادے
لا منہ سے کوئی سبُو لگا دے
سر میں ہیں خمار سے جو چکر
پھرتا ہے نظر میں دَورِ ساغر
دے مجھ کو وہ ساغرِ لبالب
بس جائیں مہک سے جان و قالب
بُو زخم جگر کے دیں جو انگور
ہوں اہلِ زمانہ نشہ میں چُور
کیف آنکھوں میں دل میں نور آئیں
لہراتے ہوئے سُرور آئیں
جوبن پہ اَداے بے خودی ہو
بے ہوش فداے بے خودی ہو
کچھ ابرو ہوا پہ تو نظر کر
ہاں کشتیِ مے کا کھول لنگر
مے خوار ہیں بے قرار ساقی
بیڑے کو لگا دے پار ساقی
مے تاک رہے ہیں دیدۂ وا
دیوانہ ہے دل اسی پری کا
منہ شیشوں کے جلد کھول ساقی
قُلْقُل کے سنا دے بول ساقی
یہ بات ہے سخت حیرت انگیز
پُنْبَہ سے رُکی ہے آتشِ تیز
جب تک نہ وہاں شیشہ ہو وا
ہو وصف شراب سے خبر کیا
تا مرد سخن نگفتہ باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
کہتی ہیں اُٹھی ہوئی اُمنگیں
پھر لطف دکھا چلیں ترنگیں
پھر جوش پر آئے کیف مستی
پھر آنکھ سے ٹپکے مے پرستی
خواہش ہے مزاج آرزو کی
سنتا ہی رہوں ڈھلک سبُو کی
گہرا سا کوئی مجھے پلا جام
کہتی ہے ہوس کہ جام لا جام
دے چھانٹ کے مجھ کو وہ پیالی
لے آئے جو چہرے پر بحالی
ہوں دل میں تو نور کی ادائیں
آنکھوں میں سُرور کی ادائیں
ہو لطف فزا یہ جوشِ ساغر
دل چھین لے لب سے لب ملا کر
کچھ لغزشِ پا جو سر اٹھائے
بہکانے کو پھر نہ ہوش آئے
لطف آئے تو ہوش کو گمائیں
جب ہوش گئے تو لطف پائیں
یہ مے ہے میری کھنچی ہوئی جاں
یا رہ گئے خون ہو کے اَرماں
یہ بادہ ہے دل رُباے میکش
دردِ میکش دواے میکش
ہے تیز بہت مجھے یہ ڈر ہے
اُڑتی نہ پھرے کہیں بطِ مے
شیشہ میں ہے مے پری کی صورت
یا دل میں بھرا ہے خونِ حسرت
ساغر ہیں بشکل چشم میگوں
شیشہ ہے کسی کا قلب پُر خوں
مے خوار کی آرزو یہ مے ہے
مشتاق کی آبرو یہ مے ہے
ہو آتش تر جو مہر گستر
دم بھر میں ہو خشک دامنِ تر
ٹھنڈے ہیں اس آگ سے کلیجے
گرمی پہ ہیں مے کشوں کے جلسے
بہکا ہے کہاں دماغِ مُخْتَلْ
پہنچا ہے کدھر خیالِ اَسفل
یہ بادہ ہے آبروے کوثر
نتھرا ہوا آب جوے کوثر
یہ پھول ہے عطر باغِ رضواں
ایمان ہے رنگ، بُو ہے عرفاں
اس مے میں نہیں ہے دُرو کا نام
کیوں اہلِ صفا نہ ہوں مے آشام
جو رِند ہیں اس کے پارسا ہیں
بہکے ہوئے دل کے رہ نما ہیں
زاہد کی نثار اس پہ جاں ہے
واعظ بھی اسی سے تر زباں ہے
جام آنکھیں اُن آنکھوں میں مروّت
شیشے ہیں دل، اُن دلوں میں ہمت
ان شیشوں سے زندہ قلب مردم
قُلْقُل سے عیاں اداے قم قم
اللہ کا حکم وَ اشْرَبُوْا ہے
بے جا ہے اگر پئیں نہ یہ مے
اے ساقیِ با خبر خدارا
لا دے کوئی جام پیارا پیارا
جوبن ہے بہارِ جاں فزا پر
بادل کا مزاج ہے ہوا پر
ہر پھول دلہن بنا ہوا ہے
نکھرے ہوئے حسن میں سجا ہے
مستانہ گھٹائیں جھومتی ہیں
ہر سمت ہوائیں گھومتی ہیں
پڑتی ہے پھوہار پیاری پیاری
نہریں ہیں لسانِ فیضِ جاری
بلبل ہے فداے خندۂ گل
بھاتی ہے اداے خندۂ گل
ظاہر میں بہارِ دل رُبا ہے
باطن میں کچھ اور گل کھلا ہے
غنچوں کے چٹکنے سے اظہار
کھلنے لگے پردہاے اسرار
ہے سرو ’’الف‘‘ کی شکل بالکل
اور صورتِ ’’لام‘ زلفِ سنبل
تشدید‘عیاں ہے کنگھیوں سے
نرگس کی بیاض چشم ہے ’ھے
صانع کی یہ صنع ہے نمودار
اللّٰہ‘ لکھا بخط گل زار
خوشبو میں بسا ہے خلعتِ گل
دل جُو ہیں ترانہاے گل
ہے آفت ہوش موسم گل
پھر اس پہ یہ صبح کا تجمل
تاروں کا فلک پہ جھلملانا
شمعوں کا سپید منہ دکھانا
مرغانِ چمن کی خوشنوائی
شوخانِ چمن کی دلرُبائی
کلیوں کی چٹک مہک گلوں کی
مستانہ صفیر بلبلوں کی
پرواز طیور آشیاں سے
اور بارشِ نور آسماں سے
مسجد میں اَذاں کا شور برپا
زُہاد وضو کیے مہیا
آنکھوں سے فراق خواب غفلت
منزل سے مسافروں کی رخصت
میخانوں میں مے کشوں کی دھومیں
دل ساغر مے کی آرزو میں
لب پر یہ سخن کہ جام پائیں
دل میں یہ ہوس سرور آئیں
کہتا ہے کوئی فدائے ساقی
بھاتی ہے مجھے ادائے ساقی
پایا ہے کسی نے جام رنگیں
دل کو کوئی دے رہا ہے تسکیں
اے قلب حزیں چہ شورو شین است
چوں ساقی تو ابوالحسین است
برخیز و بگیر جام سرشار
بنشیں و بنوش و کیف بردار
ناشاد بیاد شاد میرو
پُر دامن و بامراد میرو
مایوس مشو کہ خوش جنابے ست
بر چرخِ سخاوت آفتابے ست
ہوش و سرہوش را رہا کن
مے نوش و بدیگراں عطا کن
تُو نور ہے تیرا نام نوری
دے مجھ کو بھی کوئی جام نوری
ہر جرعہ ہو حامل کرامات
ہر قطرہ ہو کاشف مقامات
ہوں دل کی طرح سے صاف راہیں
اسرار پہ جا پڑیں نگاہیں
بغداد کے پھول کی مہک آئے
نکہت سے مشام روح بس جائے
گھٹ جائے ہوس بڑھیں اُمنگیں
آنکھوں سے ٹپک چلیں ترنگیں
یہ بادۂ تند لطف دے جائے
بغداد مجھے اُڑا کے لے جائے
جس وقت دیارِ یار دیکھوں
دیکھوں درِ شہریار دیکھوں
بے تابیِ دل مزے دکھا جائے
خود رفتگی میرے لینے کو آئے
دل محوِ جمال شکر باری
شَیئاً لِلّٰہ زباں پہ جاری
خم فرق زمین آستاں پر
قسمت کا دماغ آسماں پر
سینہ میں بہار کی تجلی
دل میں رُخِ یار کی تجلی
ہاتھوں میں کسی کا دامنِ پاک
آنکھوں میں بجائے سُرمہ وہ خاک
لب پر یہ صدا مراد دیجیے
ناشاد گدا کو شاد کیجیے
آیا ہے یہ بے کسی کا مارا
پایا ہے بہت بڑا سہارا
حسرت سے بھرا ہوا ہے سینہ
دل داغ ملال کا خزینہ
یہ دن مجھے بخت نے دکھایا
قسمت سے درِ کریم پایا
اے دست تہی و جانِ مضطر
مژدہ ہو رسا ہوا مقدر
گزرے وہ بکاؤ بین کے دن
اب خیر سے آئے چین کے دن
آیا ہوں میں درگہِ سخی میں
پہنچا ہوں کریم کی گلی میں
پرواہ نہیں کسی کی اب کچھ
بے مانگے ملے گا مجھ کو سب کچھ
اب دونوں جہاں سے بے غمی ہے
سرکار غنی ہے کیا کمی ہے
اے حُبّ وطن سقر کی ٹھہرا
اب کس کو پسند ساتھ تیرا
جائیں گے نہ اُس دیار سے ہم
اٹھیں گے نہ کوئے یار سے ہم
کون اُٹھتا ہے ایسے آستاں سے
اُٹھے نہ جنازہ بھی یہاں سے
کیا کام کہ چھوڑ کر یہ گلشن
کانٹوں میں پھنسائیں اپنا دامن
ہے سہل ہمیں جہاں سے جانا
مشکل ہے اس آستاں سے جانا
کیوں لطف بہار چھوڑ جائیں
کیوں نازِ خزاں اُٹھانے آئیں
دیکھا نہ یہاں اَسیر کوئی
محتاج نہیں فقیر کوئی
ہر وقت عیاں ہے فیضِ باری
ہر فصل ہے موسمِ بہاری
ہر شب میں شب برات کا رنگ
ہر روز میں روزِ عید کا ڈھنگ
تفریح و سُرور ہر گھڑی ہے
نوروز کی روز حاضری ہے
ہے عیش کی یہ خوشی ہمیشہ
حاضر رہے ہر گھڑی ہمیشہ
پیوستہ خوشی کا راج ہے یاں
ہر سن سنِ اِبْتِہاج ہے یاں
شوال ہے یاں کا ہر مہینہ
ہر چاند میں ماہِ عید دیکھا
انوار سے ہے بھری ہوئی رات
ہر شب ہے یہاں کی چاندنی رات
راحت نے یہاں لیا ہے آرام
آرام ہے اس جناب کا رام
مقصود دل انبساط خاطر
خدام کی خدمتوں میں حاضر
شادی کی ہوس یہیں رہوں میں
آرام مجاوروں کو دوں میں
حُضَّار سے کاوِشِ اَلم دُور
دل غم سے جدا تو دل سے غم دُور
طلعت سے دل و دماغ روشن
مقبول دعا چراغ روشن
آراستہ بزمِ خُسروی ہے
شادی کی گھڑی رَچی ہوئی ہے
مدّاح حضور آ رہے ہیں
اپنی اپنی سنا رہے ہیں
ہاں اے حسنـؔ اے غلام سرکار
مدّاح حضور نغز گفتار
مشتاق سخن ہیں اہل محفل
منّت کش انتظار ہے دل
کچھ منقبتیں سنا دعا لے
سرکار سے مدح کا صلہ لے
اے خالقِ قادر و توانا
اے واحد بے مثال و دانا
دے طبع کو سیل کی روانی
دل کش ہو اداے خوش بیانی
ہر حرف سے رنگ گل عیاں ہو
ہر لفظ ہزار داستاں ہو
مقبول میرا کلام ہو جائے
وہ کام کروں کہ نام ہو جائے
دے ملک سخن کا تاج یا رب
رکھ لے میری آج لاج یا رب
اے سیّدِ خوش بیاں کرم کر
اے افصحِ افصحاں کرم کر
اے رُوحِ امیں مدد کو آنا
لغزش سے کلام کو بچانا
وسائلِ بخشش