ایک کوہ غم دلِ حساں پہ ہے
غم زدہ حافؔظ ہیں قلب و جان لکھ
فکر تھی تاریخ کی دل نے کہا
رحلتِ دختر حسان لکھ
۲۰۱۶ء
آہ رخصت ہوئیں جہاں سے رباب
فکر تاریخ میں تھا میں غلطاں
آئی کانوں میں یہ ندا حافؔظ
لکھ رحلتِ دختر حساں
۲۰۱۶ء
زیست کا حصہ ہے کتنا ایک پل میں کہہ گیا
ہائے وہ غنچہ کہ جو ادھ کھلا ہی رہ گیا
۱۴۳۷ھ
کیا بتاؤں آج حافؔظ غم سے ہیں اشکبار
لب پہ آہیں اور آنکھیں اشکبار
چین آئے گا کجا دل کو بھلا
دامن ہستی ہوا ہے تار تار
ایسے آئیں اور گئیں دنیا سے حساںؔ کی ربابؔ
سب کو حیرت ہے یہ حافؔظ معاملہ ہے کچھ عجب
عیسوی و ہجری کی تاریخ ہے یوں ساتھ ساتھ
پاک بازو نیک نیت، خلد میں داخل ہیں اب
۱۴۳۷ھ
۲۰۱۶ء
کچھ نہ آنے کی خبر تھی اور نہ جانے کا پتہ
اُن کا آنا اور جانا بھی تھا حافؔظ کچھ عجب
آمد و رخصت کی اب تاریخ لکھو اس طرح
پاک باز و نیک نیت، خلد میں داخل ہیں اب
۱۴۳۷۵۷۹ھ ۲۰۱۶ء