درِ جاناں پہ فدائی کو اجل آئی ہو
زندگی آکے جنازے پہ تماشائی ہو
تیری صورت جو تصوّر میں اُتر آئی ہو
پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو
نیک ساعت سے اجل عیشِ ابد لائی ہو
درِ جاناں پہ کوئی محوِ جبیں سائی ہو
سنگِ در پر ترے یوں ناصیہ فرسائی ہو
خود کو بھولا ہوا جاناں ترا شیدائی ہو
خود بخود خلد وہاں کھنچ کے چلی آئی ہو
دشتِ طیبہ میں جہاں بادیہ پیمائی ہو
موسمِ مے ہو وہ گیسو کی گھٹا چھائی ہو
چشم ساقی سے پئیں جلسۂ صہبائی ہو
چاندنی رات میں پھر مے کا وہ اک دور چلے
بزمِ افلاک کو بھی حسرت مے آئی ہو
ان کے دیوانے کھلی بات کہاں کرتے ہیں
بات سمجھے وہی جو صاحب دانائی ہو
مہرِ خاور پہ جمائے نہیں جمتی نظریں
وہ اگر جلوہ کریں کون تماشائی ہو
دشت طیبہ میں چلوں چل کے گروں گرکے چلوں
ناتوانی مری صد رشکِ توانائی ہو
گل ہو جب اخترِؔ خستہ کا چراغِ ہستی
اس کی آنکھوں میں ترا جلوۂ زیبائی ہو