اپنی بگڑی بنا کے پیتا ہوں
ان سے نظریں ملا کے پیتا ہوں
یار سے لو لگا کے پیتا ہوں
آگ دل کی بجھا کے پیتا ہوں
رحمتِ عام مژدہ دیتی ہے
محتسب کو جتا کے پیتا ہوں
بے خودی پردہ دار ہوتی ہے
ماسوا کو بھلا کے پیتا ہوں
وہ جو ایسے میں یاد آتے ہیں
چار آنسو بہا کے پیتا ہوں
کوثر و سلسبیل کے غم میں
صحنِ مسجد میں جا کے پیتا ہوں
زندگی کو سنوار نے کیلئے
اپنی ہستی مٹا کے پیتا ہوں
اللہ اللہ کمالِ مے نوشی
آنکھوں آنکھوں میں لاکے پیتا ہوں
صدقہ دیتا ہوں پار سائی کا
تھوڑی سی مے گرا کے پیتا ہوں
مجہکو احباب دیں نہ کچھ الزام
’’شیخ جی‘‘ کو دکھا کے پیتا ہوں
ان کی آنکھوں کو دیکھتا ہوں خلیؔل
گویا ساغر اٹھا کے پیتا ہوں