/ Friday, 14 March,2025


عقل محدود ہے عشق ہے بے کراں





عقل محدود ہے عشق ہے بے کراں یہ مکاں اور ہے لامکاں اور ہے

راہ میں ان کی سدرہ ہے گردِ سفر وہ جہاں تک گئے وہ جہاں اور ہے

 

آج مہکی ہوئی ہے فضائے جہاں آج بزمِ جہاں کا سماں اور ہے

رونق افروز ہیں خود حبیب ِ خدا آج سامان ِ تسکین ِ جاں اور ہے

 

اور کیا چیز یہ ذوقِ عرفان ہے صرف طرز ِ نظر ہی کا فیضان ہے

عقل والوں نے کچھ اور سمجھا تمھیں عشق والوں کا لیکن گماں اور ہے

 

بخششِ حق کے آثار ہیں اس جگہ میرا ایماں ہے سرکار ہیں اس جگہ

جس جگہ ذکر ِ سرور کے انوار ہیں وہ فضا اور ہے وہ سماں اور ہے

 

جس کے صدقے سے قائم ہے ہر آستاں جس پہ قرباں تقدیس ِ کون و مکاں

آستانے تو بے شک بہت ہیں مگر وہ کرم آفریں آستاں اور ہے

 

کیوں حجابوں میں الجھی ہوئی ہے نظر ایسا طرزِ نظر تو نہیں معتبر

حُسن شمس و قمر میں یہ تابش کہاں کوئی در پر وہ جلوہ نشاں اور ہے

 

اک بیاں وہ ہے جس میں حضوری نہیں اک بیاں ایسا ہےجس میں دوری نہیں

جس کو سن کر مدینہ ہی بن جائے دل اہل کا وہ حُسن بیاں اور ہے

 

خاکِ پایہ بھی رومی جامی کی ہے اک سند یہ بھی ان کی ٖغلامی کی ہے

پھر بھی کہتے ہیں خاؔلدکے بارے میں سب نعت میں اس کا رنگ ِ بیاں اور ہے