/ Friday, 14 March,2025


عشوۂ لالہ رخاں ہو کہیں ایسا تو نہیں





عشوۂ لالہ رخاں ہو کہیں ایسا تو نہیں
درد سرمایۂ جاں ہو کہیں ایسا تو نہیں
یہ اِدھر ڈوبا اُدھر لب پہ شفق دوڑ گئی
دل مِرا مہر رواں ہو کہیں ایسا تو نہیں
عشق کی شیفتگی دارو رسن کیا معنیٰ
جاں وہی حاصل جاں ہوکہیں ایسا تو نہیں
کیوں جبیں حسن جواں کی عرق آلود ہوئی
سامنے عشق جواں ہو کہیں ایسا تو نہیں
میں تو خاموش ہوں کیوں شور بپا ہے ہر سو
نغمہ زا دل کی فغاں ہو کہیں ایسا تو نہیں
بے رخی دیکھ کے محفل سے اٹھ آنا اخؔتر
لغزش فکر و گماں ہو کہیں ایسا تو نہیں