آیا ہے جو ذکرِ مہ جبیناں
قابو میں نہیں دلِ پریشاں
یاد آئی تجلیِ سرِ طور
آنکھوں کے تلے ہے نور ہی نور
یا رب یہ کدھر سے چاند نکلا
اُٹھا ہے نقاب کس کے رُخ کا
کس چاند کی چاندنی کھِلی ہے
یہ کس سے میری نظر ملی ہے
ہے پیشِ نگاہ جلوہ کس کا
یا رب یہ کہاں خیال پہنچا
آیا ہوں میں کس کی رہ گزر میں
بجلی سی چمک گئی نظر میں
آنکھوں میں بسا ہے کس کا عالم
یاد آنے لگا ہے کس کا عالم
اب میں دلِ مضطرب سنبھالوں
یا دید کی حسرتیں نکالوں
اللہ! یہ کس کی انجمن ہے
دنیا میں بہشت کا چمن ہے
ہر چیز یہاں کی دل رُبا ہے
جو ہے وہ ادھر ہی دیکھتا ہے
شاہانِ زمانہ آ رہے ہیں
بستر اپنے جما رہے ہیں
پروانوں نے انجمن کو چھوڑا
بلبل نے چمن سے منہ کو موڑا
ہے سرو سے آج دُور قمری
آئینوں کو چھوڑ آئی طوطی
عالم کی جھکی ہوئی ہے گردن
پھیلے ہیں ہزاروں دست و دامن
مظلوم سنا رہے ہیں فریاد
ہے لائقِ لطف حالِ ناشاد
بے داد و ستم کی داد دیجیے
للہ ہمیں مراد دیجیے
بیماروں کو مل رہی ہے صحت
کمزوروں میں بٹ رہی ہے طاقت
جو آج ہیں سرورانِ عالم
کہتے ہیں جنہیں سرانِ عالم
اُمیدیں بھرے ہوئے دلوں میں
شامل ہیں یاں کے سائلوں میں
یہ شہر ہے یا جہانِ عزت
یہ در ہے کہ آسمانِ عزت
اس در سے ہے عز و جاہِ کونین
کہتے ہیں اسے پناہِ کونین
اس در کو فلک جناب کہیے
ان ذرّوں کو آفتاب کہیے
عشاق کی آرزو یہ در ہے
محتاج کی آبرو یہ گھر ہے
ہم سب ہیں اس آستاں کے بندے
ہیں دونوں جہاں یہاں کے بندے
دربار ہے اُس حبیبِ رب کا
مختار ہے جو عجم و عرب کا
اے خامۂ خوش نما سنبھلنا
اس راہ میں سر جھکائے چلنا
یہ وصفِ حبیبِ کبریا ہے
یہ نعتِ جنابِ مصطفی ہے
اے دل نہیں وقتِ بے خودی یہ
ہے ساعتِ مدحتِ نبی یہ
دیکھ اے دلِ بے قرار و بے تاب
ملحوظ رہیں یہاں کے آداب
ہشیار میرے مچلنے والے
یاں چلتے ہیں سر سے چلنے والے
ہے منع یہاں بلند آواز
ہر بات اَدا ہو صورتِ راز
سب حال اِشاروں میں اَدا ہو
یاں نالہ بھی ہو تو بے صدا ہو
جو جانتے ہیں یہاں کے رتبے
بھر لیتے ہیں منہ میں سنگریزے
خاموش ہیں یوں سب انجمن میں
گویا کہ زباں نہیں دَہن میں
ہے جلوہ فزا وہ شاہِ کونین
بے چین دلوں کا جس سے ہے چین
دل دار و انیس خستہ حالاں
فریاد رس شکستہ بالاں
مرہم نہ زخمِ دل فگاراں
تسکیں دہِ جانِ بے قراراں
غم خوار یہی ہے غم زدوں کا
حامی ہے یہی ستم زدوں کا
ایمان کی جان ہی تو یہ ہے
قرآن کی زبان ہی تو یہ ہے
یکتا ہے یہ خوش اَدائیوں میں
معشوق یہاں فدائیوں میں
شادابیِ ہر چمن ہے یہ گل
ہیں آٹھوں بہشت اس کے بلبل
رکھتی ہے جو سوزشِ جگر شمع
پروانہ ہے اس کے حسن پر شمع
دیکھے تو کوئی یہ جوشِ فیضاں
عالم کے بھرے ہیں جیب و داماں
ہے لطف یہ شانِ میزبانی
ہر وقت ہے سب کی میہمانی
دربانوں کے اس لیے ہیں پہرے
در پر کوئی آ کے پھر نہ جائے
ہر لحظہ یہاں یہی عطا ہے
ہر وقت یہ در کھلا ہوا ہے
مایوس گیا نہ کوئی مضطر
یاں سنتے ہیں سب کی دل لگا کر
فریاد کی ہے یہاں رسائی
ناشاد کی ہے یہاں رسائی
وہ کون ہے جس نے آہ کی ہو
اور اُس کو مراد یاں نہ دی ہو
ہیں سب کی یہ داد دینے والے
منہ مانگی مراد دینے والے
محرومِ عطاے شاہ رہا کون
مایوس یہاں سے پھر گیا کون
یاں کہتے نہیں کبھی پھر آنا
کب چاہیں یہ در بدر پھرانا
کیوں دیر ہو سب یاں ہیں موجود
رحمت، قدرت، غنا، کرم، جود
سرکار میں کون سی نہیں شے
ہاں ایک ’نہیں‘ یاں نہیں ہے
جاتے کو یہ ہیں بلانے والے
آئے ہوئے کو بٹھانے والے
سوتے کو یہ خواب سے جگائیں
بیدار کو گھر پہ جا کر لائیں
یوسف ہے غلام کا خریدار
ہر وقت لگا ہوا ہے بازار
یہ دست کرم ہے گوہر افشاں
گوہر اَفشاں و شکر افشاں
محتاج غریب کو گُہر دے
ہر تلخ نصیب کو شکر دے
شکر شکرِ بکام اس سے
گوہر گوہر کا نام اس سے
اُمت کی دعا میں اس کو دیکھو
دامانِ گدا میں اس کو دیکھو
اس ہاتھ کا نام ہے یَدُ اللّٰہ
مَنْ عَاھَدَہٗ یُعَاھِدُ اللّٰہ
وہ درد نہیں جو یہ نہ کھو دے
وہ داغ نہیں جو یہ نہ دھو دے
گاہے یہ سرِ یتیم پر ہے
گاہے یہ دلِ دو نیم پر ہے
بیمار کے واسطے عصا ہے
اندھوں کے لیے یہ رہ نما ہے
محتاجوں کے دل غنی کیے ہیں
ہاتھوں میں خزانے بھر دیے ہیں
عیسیٰ کی زباں میں ہیں جو برکات
اُس ہاتھ کے سامنے ہیں اک بات
گر قالبِ مردہ کو وہ جاں دے
یہ ریزۂ سنگ کو زباں دے
قالب تو مکان ہی ہے جاں کا
پتھر میں ہے کام کیا زباں کا
ہے نائب دستِ جودِ رب ہاتھ
ہیں دستِ نگر اُسی کے سب ہاتھ
جس دل کی شکیب کو یہ پہنچا
ہو جاتا ہے ہاتھ بھر کلیجا
ہاتھ آئی ہے ہاتھ کے وہ قدرت
اُس ہاتھ کے پاؤں چومے ہیبت
پھر پھر گئے منہ ستم گروں کے
اُٹھ اُٹھ گئے پاؤں لشکروں کے
اُس ہاتھ میں ہے نظامِ عالم
کرتا ہے یہ اِنتظامِ عالم
اُس ہاتھ میں ہیں جہان کے دل
ناخن میں پڑے ہیں حلِ مشکل
تکتی ہیں اُسی کو سب نگاہیں
کونین کی اُس طرف ہیں راہیں
زنجیرِ اَلم کو توڑتا ہے
ٹوٹے ہوئے دل یہ جوڑتا ہے
جن ہاتھوں پہ ہے یہ ہاتھ پہنچا
اُن ہاتھوں پہ ہاتھ ہے خدا کا
دینے میں نہ کی ہے دیر اُس نے
بھوکوں کو کیا ہے سیر اُس نے
اے دستِ عطا میں تیرے صدقے
اے ابرِ سخا میں تیرے صدقے
جب تیز ہو آفتابِ محشر
جب کانٹے پڑیں لب و زباں پر
جب تیرے سوا نہ ہو ٹھکانا
یوں اپنی طرف مجھے بلانا
اے پیاسے کدھر چلا اِدھر آ
اب تک تو کہاں رہا اِدھر آ
آ تیری لگی کو ہم بجھا دیں
آ آبِ خنک تجھے پلا دیں
لے تشنۂ کربلا کا صدقہ
لے کشتۂ بے خطا کا صدقہ
او سُوکھی ہوئی زبان والے
لے آتشِ تشنگی بجھا لے
اُس ہاتھ کی قدرتیں ہیں ظاہر
اعجاز ہیں دست بستہ حاضر
اک مہ سے فلک کو دو قمر دے
مغرب کو نمازِ عصر کر دے
خورشید کو کھینچ لائے دم میں
نم چاہیں تو یم بہائے دم میں
کچھ بھی اشارہ جو اس کا پا جائیں
لُنجے ابھی دوڑتے ہوئے آئیں
کیا دستِ کریم کی عطا ہے
دیکھو جسے وہ بھرا پڑا ہے
بندے تو ہوں کیا عطا سے محروم
دشمن بھی نہیں سخا سے محروم
دینے میں عدُو عدُو نہیں ہے
یاں دست کشی کی خو نہیں ہے
جس کی کہ عدُو پہ بھی عطا ہو
اُس دستِ کرم کی کیا ثنا ہو
بس اے حسنـؔ شکستہ پا بس
اب آگے نہیں رہا تیرا بس
ہے وقتِ دُعا نہ ہو تو مضطر
اُس ہاتھ سے کہہ قدم پکڑ کر
مدّاح کو مدح کا صلہ دے
بگڑے ہوئے کام سب بنا دے
ڈوبوں تو مجھے نکال لینا
پھسلے جو قدم سنبھال لینا
ہر وقت رہے تیری عطا ساتھ
پھیلیں نہ کسی کے آگے یہ ہاتھ
مجھ پر نہ پڑے کبھی کچھ اُفتاد
ہر لحظہ سِپر ہو تیری اِمداد
شیطاں میرے دل پہ نہ بس پائے
دشمن کبھی دسترس نہ پائے
گر مجھ کو گرائے لغزشِ پا
تو ہاتھ پکڑ کے کھینچ لینا
غم دل نہ مرا دُکھانے پائے
صورت نہ اَلم لگانے پائے
دم بھر نہ اَسیرِ بے کسی ہوں
مجبور نہ ہوں کہ قادری ہوں
ہوں دل سے گداے آل و اصحاب
ہر دم ہوں فداے آل و اصحاب
یاروں پہ تیرے نثار ہوں میں
پیاروں پہ تیرے نثار ہوں میں
وسائلِ بخشش