/ Thursday, 13 March,2025


بدلی رخ ہوا وہ نظارے بدل گئے





بدلی رخ ہوا وہ نظارے بدل گئے
احباب کی نظر کے شرارے بدل گئے

کہتے تھے ہر قدم پہ پکارو ملینگے ہم
دردالم کے اب تو سہارے بدل گئے

رہبر ہی اپنا رہزنِ دینِ نبی ہوا
کتنے بڑے بڑے تھے منارے بدل گئے

علمائے حق ہی ہوتے ہیں مطعون ہرجگہ
تحریکِ سنیت کے شمارے بدل گئے

جنگل ہے سون سان بیابان دل بھی ہے
بازو و دست اب تو ہمارے بدل گئے

جو حاشیۂ ذہن پہ آہی نہیں سکا
لعل و گُھر صدف وہی ہیرے بدل گئے

حزن و ملال عالمِ حسرت و یاس میں
اعداء سے کیا گلا کہ ہمارے بدل گئے

جن پر پہونچ کر دھوتے تھے داغِ غم و الم
بحرِ کرم کے اب وہ کنارے بدل گئے

دوشِ اُفق پہ آہ کو رکھتے ہو تم فراں
نازو نگاہ و طرز کہ سارے بدل گئے