بدلی رخ ہوا وہ نظارے بدل گئے
احباب کی نظر کے شرارے بدل گئے
کہتے تھے ہر قدم پہ پکارو ملینگے ہم
دردالم کے اب تو سہارے بدل گئے
رہبر ہی اپنا رہزنِ دینِ نبی ہوا
کتنے بڑے بڑے تھے منارے بدل گئے
علمائے حق ہی ہوتے ہیں مطعون ہرجگہ
تحریکِ سنیت کے شمارے بدل گئے
جنگل ہے سون سان بیابان دل بھی ہے
بازو و دست اب تو ہمارے بدل گئے
جو حاشیۂ ذہن پہ آہی نہیں سکا
لعل و گُھر صدف وہی ہیرے بدل گئے
حزن و ملال عالمِ حسرت و یاس میں
اعداء سے کیا گلا کہ ہمارے بدل گئے
جن پر پہونچ کر دھوتے تھے داغِ غم و الم
بحرِ کرم کے اب وہ کنارے بدل گئے
دوشِ اُفق پہ آہ کو رکھتے ہو تم فراں
نازو نگاہ و طرز کہ سارے بدل گئے