بار بار آپ جو سرکار بلاتے جاتے
عمر کٹتی اسی دربار میں آتے جاتے
جام پر جام جو سرکار پلاتے جاتے
ہوش جاتے تو نہیں ہوش میں آتے جاتے
میرے خوابوں کی بھی تقدیر جگاتے جاتے
رات کو مطلع انوار بناتے جاتے
آپ کی یاد کی تقریب مناتے جاتے
اپنی پلکوں پہ دئے ہم بھی سجاتے جاتے
ڈوبنے والوں ان کو نہ پکارا ہوگا
درنہ طوفان ہی خود پار لگاتے جاتے
میری آنکھوں سے سد اشک برتے رہتے
اور وہ گوہر مقصود لٹانے جاتے
آپ جس سمت بھی جاتے تو بعنوان کرم
بے نواؤں کا مقدر بھی جگاتے جاتے
یاد ِ سرکار نے ہر گام سہارا بخشا
ہم جو گرتے بھی تو سر کار اٹھاتے جاتے
ساتھ لے جاتے جو خاؔلد ہمیں زدّار ِ حرم
نعت سرکار ِ مدینہ کی سناتے جاتے