/ Thursday, 13 March,2025


برق کو آتش غیرت سے جلاتی جاتے





برق کو آتش غیرت سے جلاتی جاتے
شعلۂ طور کو آنکھوں سے لگاتے جاتے

کسوت نور ہے مردے کو پہناتے جاتے
دیکھتے جلوۂ دیدار کو آتے جاتے

گل نظارہ کو آنکھوں سے لگاتے جاتے
ہیں کبھی طالع واژوں کی شکایت کرتے

ہیں کبھی جیب گریباں کو غارت کرتے
شجر حشر وطن کی بھی حسرت کرتے

ہر سحر روئے مبارک کی زیارت کرتے
داغ جرمان دل مخروں سے مٹاتے جاتے

جرات شوق کا انداز ترقے دیکھو
دل مشتاق کے عنوان تمنا دیکھو

دس رس ہوتی اگر ان کے قدم تک دیکھو
پائے اقدس سے اٹھاتی نہ کبھی آنکھو ں کو

روکنے والے اگر لاکھ ہٹاتے جاتے
ہوتی صدقے کبھی ناقہ کے کبھی محمل کے

ساربان کے کبھی ہاتوں کے بلائیں لیتے
شوق سے وجد کے عالم میں جو پھرا کرتے

دشت یثرب میں تیری ناقہ کے پیھچے پیھچے
دل دیوانہ کو زنجیر پہناتے جاتے

ایسی قسمت تھی کہاں ایدل غمگین اپنی
ملتے آنکھوں کو جو نعلین مبارک آن کی

بھی دولت تو ہمیں آہ میر ہوتی
قدم پاک کی گر خاک بھی ہاتھ آجاتی

چشم مشتاق میں بھر بھر کی لگاتے جاتے
ایک سر کیا کہ میر ہوں اگر لا کھوں سر

بس یہی حسرت و افسوس ہے ہر شام و سحر
سر بسر کیجئے قربان سب ان قدموں سے

خواب میں دولت دیدار سے ملتے وہ اگر
بخت خوابیدہ کوٹھو کر سے جگاتے جاتے

کیوں نہ فغان سینہ فگاروں کی طرح
شعلہ زن رحم جگر میں ہیں ہزاروں کی طرح

آہ کیوں پھونچے جوزارنظاروں کی طرح
دست صای جو چھوٹے جو ہزاروں کی طرح

چمن کوچہ دلبر ہے کو جاتے جاتے
تھک کرم رہ گئے ہیں ہم سفر تم میں سے

گر کوئی منزل مقصود کو جیتا پونچے
میری جانب سے یہ آداب ہے غرض کرے

کاؔفی کشتہ دیدار کو زندہ کرتے
لب اعجاز اگر آپ بلاتے جاتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(دیوانِ کافؔی)