برق کو آتش غیرت سے جلاتی جاتے
شعلۂ طور کو آنکھوں سے لگاتے جاتے
کسوت نور ہے مردے کو پہناتے جاتے
دیکھتے جلوۂ دیدار کو آتے جاتے
گل نظارہ کو آنکھوں سے لگاتے جاتے
ہیں کبھی طالع واژوں کی شکایت کرتے
ہیں کبھی جیب گریباں کو غارت کرتے
شجر حشر وطن کی بھی حسرت کرتے
ہر سحر روئے مبارک کی زیارت کرتے
داغ جرمان دل مخروں سے مٹاتے جاتے
جرات شوق کا انداز ترقے دیکھو
دل مشتاق کے عنوان تمنا دیکھو
دس رس ہوتی اگر ان کے قدم تک دیکھو
پائے اقدس سے اٹھاتی نہ کبھی آنکھو ں کو
روکنے والے اگر لاکھ ہٹاتے جاتے
ہوتی صدقے کبھی ناقہ کے کبھی محمل کے
ساربان کے کبھی ہاتوں کے بلائیں لیتے
شوق سے وجد کے عالم میں جو پھرا کرتے
دشت یثرب میں تیری ناقہ کے پیھچے پیھچے
دل دیوانہ کو زنجیر پہناتے جاتے
ایسی قسمت تھی کہاں ایدل غمگین اپنی
ملتے آنکھوں کو جو نعلین مبارک آن کی
بھی دولت تو ہمیں آہ میر ہوتی
قدم پاک کی گر خاک بھی ہاتھ آجاتی
چشم مشتاق میں بھر بھر کی لگاتے جاتے
ایک سر کیا کہ میر ہوں اگر لا کھوں سر
بس یہی حسرت و افسوس ہے ہر شام و سحر
سر بسر کیجئے قربان سب ان قدموں سے
خواب میں دولت دیدار سے ملتے وہ اگر
بخت خوابیدہ کوٹھو کر سے جگاتے جاتے
کیوں نہ فغان سینہ فگاروں کی طرح
شعلہ زن رحم جگر میں ہیں ہزاروں کی طرح
آہ کیوں پھونچے جوزارنظاروں کی طرح
دست صای جو چھوٹے جو ہزاروں کی طرح
چمن کوچہ دلبر ہے کو جاتے جاتے
تھک کرم رہ گئے ہیں ہم سفر تم میں سے
گر کوئی منزل مقصود کو جیتا پونچے
میری جانب سے یہ آداب ہے غرض کرے
کاؔفی کشتہ دیدار کو زندہ کرتے
لب اعجاز اگر آپ بلاتے جاتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(دیوانِ کافؔی)