/ Friday, 14 March,2025


بزم گیتی کا ہر ایک ذرہ پُر انوار ہوا





سہرا

بزم گیتی کا ہر ایک ذرہ پُر انوار ہوا
حسن خود ناصیۂ عشق پہ ضوبار ہوا
اللہ اللہ رے سہرے کا جمال رنگیں
نکہت خلد بیاں نزہتِ افکار ہوا
از زمیں تابہ فلک ایک تعطر کاسماں
روکشِ باد بہاری ہے فضا آج کے دن
کس نے زلفوں کو بکھیرا ہے بصد ناز وادا
شوخ و چنچل ہوئی جاتی ہے ہوا آج کے دن
برق چشمان حسیں مہر عذار رنگیں
اپنے پردے میں چھپائے ہے قیامت سہرا
ساغر گل میں ہے صہبائے شریعت رقصاں
شرح ماطاب لکم حامل سنت سہرا
ہے یہ گلزار وصؔی شہ ابرار کا پھول
جس نے گیتی کو مہکنے کا سبق سکھلایا
فکر و جداں کی قنادیل فروزاں کرکے
تیرہ سامانئ ماحول کی پلٹی کایا
کوثری جام لئے ساغر تسنیم لئے
تیری آنکھوں نے سکھایا ہے محبت کیا ہے
بربط و عود و چراغ و دف و افسانہ و چنگ
آج معلوم ہوئی راہ حقیقت کیا ہے
نغمہ افشاں ہے لب نسترن دردو سمن
خامشی میں بھی بڑی شورش گویائی ہے
اس طرف سوز کے دریا میں تلاطم برپا
اس طرف ساز عروسانہ کی برنائی ہے
اپنے گہوارۂ الفت میں لئے رنگ حنا
تری چوکھٹ پہ شفق بن کے شفیق آئی ہے
کتنے گلہائے عقیدت کا بنا کے مالا
فرط اخلاص و محبت سے یہاں لائی ہے
مرے نو شاہ ضیائے رخ تاباں کی قسم
طلعت حسن ثرّیا تری پروانہ ہے
جذبہ عشق کی اللہ رے عشوہ سازی
رفعت برج سعادت تری دیوانہ ہے
ننھے تاروں کی امیدوں سے شعاعیں پھوٹیں
تو نمود آرا فقط پیکر انسان ہوا
اور انساں نے جب آغوش تمنا واکی
پھر کہیں جاکے کوئی سیّدذی شان ہوا
تابش روئے منور سے گماں ہوتا ہے
فرش گیتی پر اُتر آیا کوئی بدؔر منؔیر
باؔبر و طارقؔ و زہؔرہ کی یہ معصوم دعا
کھینچ دی جس نے نگاہوں میں مسرت کی لکیر
ہو ترا طالع بیدار مبارک تجھ کو
سروری تاج بنے زیب دہ بخت سعید
کیوں نہ سیمائے مسرت سے شعائیں پھوٹھیں
رات اخؔتر ہے شب قدر تو دن نازش عید