/ Thursday, 13 March,2025


چاہت، محبت اور عقیدت رضا کی ہے





اِس دور اِس صدی کو بھی حاجت رضا کی ہے

فاروق اختؔر چشتی مالیگانوی

چاہت، محبت اور عقیدت رضا کی ہے
شہرت، قبولِ عام، فضیلت رضا کی ہے
عصری علوم، فقہ و تصوف، سُخن وری
ہر شعبہ میں عظیم مہارت رضا کی ہے
مفتی نعیمِؔ دین، بہاریؔ سے ذی وقار
تاریخِ علم و فضل، رفاقت رضا کی ہے
تزئینِ نظم و نثر کوئی سیکھے آپ سے
کیا ہی فصاحت اور بلاغت رضا کی ہے
ہے رشکِ فارسی، عربی، نعت و منقبت
اُردو ادب پہ ایک عنایت رضا کی ہے
گھر کے زمین دار، سِپہ گر تھا خاندان
سرمایۂ کتب ہے جو ثروت رضا کی ہے
لائے کوئی ’’حدائق بخشش‘‘ کا کیا جواب
ہر شعر، ہر کلام میں ندرت رضا کی ہے
’’ایمان کا خزانہ‘‘ ہمیں دے گئے ہیں آپ
ہے کنزِ آخرت جو عقیدت رضا کی ہے
’’الامن والعلیٰ‘‘ میں مِلا سُنیوں کو امن
تصنیف، پاس بانِ شریعت رضا کی ہے
تصنیف ہے جو ’’ترکِ موالات‘‘ آپ کی
شانِ صواب دیدِ سیاست، رضا کی ہے
ہے معترفِ تمام ’’فتاویٰ‘‘ کے خوشہ چیں
بے مثل و باکمال فقاہت رضا کی ہے
شاگردِ داغؔ بن کے تو چمکے حسن رضا
اندازِ نعت گوئی میں نسبت رضا کی ہے
تحقیق جامعات میں جاری ہے، رات دن
اعلیٰ ترین علم میں قامت رضا کی ہے
دین حنیف میں ہیں ’’امامت کے چار باغ‘‘
بے داغ، بے خزاں حنفیّت رضا کی ہے
شاہد ہیں سب اکابرِ مارہرہ آپ کے
رشکِ اکابرین ولایت رضا کی ہے
’’کلکِ رضا ہے خنجرِ خوں خوار برق بار‘‘
باطل سے کوئی پوچھے جو ہیبت رضا کی ہے
گستاخ سر پٹکتے رہے، کیا جواب دیں؟
عشق رسولﷺ آخری حجت رضا کی ہے
زیرِ لوائے حمد یہی ہوگی حشر میں
سُنی بریلوی جمعیت رضا کی ہے
ہم سُنیوں کو کاش ہو ادراک آج بھی
کیا کیا تقاضا کرتی محبت رضا کی ہے
مفلس، غریب، نانِ جویں کو ترستے تھے
نعمت کھلانے والی، وصیت رضا کی ہے
ہیں چودھویں صدی کے مجدد بلا شبہہ
اس دور، اس صدی کو بھی حاجت رضا کی ہے
اشعار تاب دار رقم ہوں گے خود بخود
اختؔر! رضا کے ذکر میں شوکت رضا کی ہے