چھپ کے پردہ میں آنکھ کے وہ حسیں
دل کے پردہ میں ہوگیا ہے مکیں
لاکھ پردہ میں ہوگیا ہے مکیں
جلوہ گر گشت یار پردہ نشیں
غمزدہ زن گشت حُسن در بازار
منعم خستہ و جگر افگار
از پئے زخم ہائے قلب نگار
مرہمے می بہ جست از بازار
کیں صدا آمد از در و دیوار
لیس فی الدار غیرہ دیار
دلِ افگار کا خدا حافظ
تنِ بیمار کا خدا حافظ
گریہ غم رفیق ہر دم ہے
چشم خُونبار کا خدا حافظ
بے زری بے کسی میں عزمِ حرم
ایسے ناچار کا خدا حافظ
دشمنوں کے بُرے ادارے ہیں
مسلمِ زار کا خدا حافظ
آندھیاں چل رہی ہیں آفت کی
گُلِ بے خار کا خدا حافظ
آہ کرتی ہے آہ کش کو ذلیل
دل کے اَسرار کا خدا حافظ
چل دئیے باغ سے چمن پیرا
گُل و گلزار کا خدا حافظ
کیا ظالم نے آشیاں ویراں
بلبلِ زار کا خدا حافظ
جس کو لینا ہے عشق کا سودا
اس خریدار کا خدا حافظ
بندہ تنہا مصیبتیں بے حد
منعم زار کا خدا حافظ