دایہ ہوئیں ایک روز حاضر
اور عرض یہ کی کہ عبدِ قادِر
بچپن میں تو اُڑ کے گود سے تم
ہو جاتے تھے آفتاب میں گم
امکان میں ہے یہ حال اب بھی
کر سکتے ہو یہ کمال اب بھی
ارشاد ہوا بخوش بیانی
وہ عہد تھا عہدِ ناتُوانی
اُس وقت ہم صغیر سِنْ تھے
کمزوری و ضُعف کے وہ دن تھے
طاقت تھی جو ہم میں مہر سے کم
چھپ جاتے تھے آفتاب میں ہم
اب ایسے ہزار مہر آئیں
گُم ہم میں ہوں پھر پتا نہ پائیں
صدقے ترے اے جمال والے
قربان تری تجلیوں کے
تو رُخ سے اگر اُٹھا دے پردے
ہر ذرّہ کو آفتاب کر دے
وہ حسن دیا تجھے خدا نے
محبوب کیا تجھے خدا نے
ہر جلوہ بہار گلشنِ نور
ہر عکس طرازِ دامنِ نور
تو نورِ جنابِ کبریا ہے
تو چشم و چراغِ مصطفی ہے
کہتی ہے یہ تیرے رُخ کی تنویر
میں سُورۂ نور کی ہوں تفسیر
اے دونوں جہان کے اجالے
تاریکیِ قبر سے بچا لے
میں داغِ گناہ کہاں چھپاؤں
یہ رُوے سیاہ کسے دکھاؤں
ظلمت ہو بیان کیا گناہ کی
چھائی ہوئی ہے گھٹا گناہ کی
اے مہر ذرا نقاب اٹھا دے
للہ خوشی کا دن دکھا دے
پھر شامِ اَلم نے کی چڑھائی
بغداد کے چاند کی دُہائی
آفت میں غلام ہے گرفتار
اب میری مدد کو آؤ سرکار
حالِ دلِ بے قرار سُن لو
للہ میری پکار سُن لو
وسائلِ بخشش