/ Thursday, 13 March,2025


در شاہ قاسم پہ آئی ہے گاگر





درِشاہِ قاسم پہ آئی ہے گاگر

برموقعہ عرس شریف قاسمی ۱۳۶۸؁ ھ

در شاہ قاسم پہ آئی ہے گاگر
پیامِ دل افروز لائی ہے گاگر
سمن یا سمن میں بسائی ہے گاگر
صبا جا کے طیبہ سے لائی ہے گاگر
تو اک تحفۂ مصطفائی ہے گاگر
جواہر عقیدت کے اس پر لٹاؤ
اباطیل بدعت یہاں سے ہٹاؤ
محبت سے لے کر بڑھو اور بڑھاؤ
تقدس کے ساغر پیو اور پلاؤ
کہ پروانۂ پارسائی ہے گاگر
مٹیں کلفتیں جس سے روح و بدن کی
چھٹیں ظلمتیں جس سے رنج و محن کی
گھٹائیں گھریں رحمتِ ذی المنن کی
ہٹیں بدلیاں دم میں سارے فتن کی
وہ فانوسِ مشکل کشائی ہے گاگر
گلے میں تجمل کے پھولوں کا زیور
جبیں پر تنعم کی کلیوں کا جھومر
غرض ہے منور سر و سینہ و بر
سراسر مُعنبر سراپا معطر
مجسم دلہن بن کے آئی ہے گاگر
طریقہ بتاتی ہے نور و ہدیٰ کا
دکھاتی ہے جلوہ یہ حلم و حیا کا
ادب یہ سکھاتی ہے حق وفا کا
سبق دے رہی ہے یہ صدق و صفا کا
اسی سے تو سر پر اٹھائی ہے گاگر
تعلق اسے ہے دلیرانِ حق سے
علاقہ یہ رکھتی ہے شیرانِ حق سے
اسے رابطہ ہے شہیدانِ حق سے
ہے نِسبت اسے چونکہ یارانِ حق سے
تو اک جلوۂ مرتضائی ہے گاگر
بساتے رہے دل میں ارباب الفت
بچھاتے رہے آنکھیں باصد عقیدت
ذرا دیکھئے تو بلندئ قِسمت
اٹھاتے رہے ہیں جو اہل محبت
تو سُتھروں سے ستھروں میں آئی ہے گاگر
نہ شکوہ کسی کو رہا بے کلی کا
گلہ ہے کسی کو نہ اب بیکسی کا
نہ کیوں مدح خواں ہو مرے شاہ جی کا
کھلا غنچۂ دل ہر اک قاسمی کا
کچھ اس ناز سے مسکرائی ہے گاگر
مقدر کا یہ اوج اللہ اکبر
ہوا جا رہا ہوں میں آپے سے باہر
کہاں کے یہ جام اور کیسے یہ ساغر
نگاہوں میں پھرتی ہے تصویرِ کوثر
نظر میں کچھ ایسی سمائی ہے گاگر
کبھی ان کا روئے منور تکیں گے
کبھی ان کے قدموں سے آنکھیں ملینگے
تڑپتے نہ فرقت میں یوں ہم رہیں گے
مزا شربتِ دید کا بھی چکھیں گے
جو قاسم کی حق نے دکھائی ہے گاگر
یہ وہ ہیں کہ روتے ہوؤں کو ہنسائیں
جو دینے پہ آئیں تو موتی لٹائیں
عجب کیا کہ تیری بھی بگڑی بنائیں
تجھے اصفیا دے رہے ہیں دعائیں
خلیؔل آج تو نے وہ گائی ہے گاگر