دردماں درد کا کیا بنا کربلا
سارے عالم پہ بس چھا گیا کربلا
مشکلیں ہو کے حل ساتھ دینے لگیں
میں نے جب دے دیا واسطہ کربلا
خونِ آلِ نبی سے وہ سینچا گیا
زندگی موت کو دے گیا کربلا
مشکلوں پر بھی میں نے تبسُّم کیا
جب نظر اشک میں آگیا کربلا
جبلِ غم مجھ کو سُرمے کے مانند لگے
عقل کے مرغ کو جب ملا کربلا
تیری آغوش میں سو گئے مہر و ماہ
مرحبا مرحبا واہ واہ کربلا
عشق کو صبر کا درس تجھ سے ملا
رہبرِراہِ اُلفت بنا کربلا
حشر میں پیرہن کا دِکھا دبدبہ
بخششیں یوں لُٹاتا گیا کربلا
صدقِ صدیق کو عدلِ فاروق کو
شارحینِ کُتب نے لکھا کربلا
خون شاہ شہیداں میں وہ جود تھا
دیکھ کر دیکھتا رہ گیا کربلا
ڈھونڈتا ہے ابھی تک نواسے کو وہ
حاصلِ دید کی التجا کربلا
تیری فاران بخشش ہوئی ذکر سے
کر گیا کربلا کربلا کربلا