دل کا کنول بہار نہ لایا ترے بغیر
آیا جو تیری یاد کا جھونکا ترے بغیر
تاروں کی چھاؤں میں بھی نہیں ہے سکوں نصیب
کتنی اداس ہے مری دنیا ترے بغیر
وارفتگی نے بڑھ کے مجھے اور کھودیا
آئی نہ راس کوئی تمنا ترے بغیر
عہد شباب، بزمِ طرب، محفل نشاط
بے کیف ہے یہ سارا تماشا ترے بغیر
آہ و بکا کے ساتھ تبسم نہیں کوئی
مہنگا پڑا نہ نزع کا سودا ترے بغیر
دیوانگی خرد کے مقابل نہ آسکی
یعنی جنوں کو ہوش نہ آیا ترے بغیر
رہ جاتا ہے خلیؔل کلیجہ مسوس کر
چلتا ہے میکدہ میں جو مینا ترے بغیر