/ Friday, 14 March,2025


دل کہتا ہے ہروقت صفت ان کی لکھا کر





دل کہتا ہے ہر وقت صفت ان کی لکھا کر
کہتی ہے زباں نعمت محمد کی پڑھا کر

اس محفل میلاد میں اے بندۂ سرکار
جب آکے درود اس شہ عالم پہ پڑھا کر

خالی کبھی پھیرا ہی نہیں اپنے گدا کو
اے سائلو مانگو تو ذرا ہاتھ اٹھا کر

خود اپنے بھکاری کی بھرا کرتے ہیں جھولی
خود کہتے ہیں یا رب مرے منگتا کا بھلا کر

اعدا سے جفا پر ہو جفا اور یہ دعا دیں
یارب انہیں ایمان کی تو آنکھ عطا کر

کفار بداطوار سے پڑھواتے ہیں کلمہ
اک چاشنی لذت دیدار چکھا کر

اے ابر کرم بارش رحمت تری ہوجائے
ہوجائیں گنہگار ابھی پاک نہاکر

کیا دور ہے سرکار مدینہ کے کرم سے
تھوڑی سی جگہ دیں ہمیں طیبہ میں بلا کر

گر ہند میں مرتا ہے کوئی عاشق صادق
لے جاتے ہیں طیبہ میں ملک اس کو اٹھا کر

بہکاتا ہے یوں نفس کہ گھر چھوڑ نہ اپنا
ایمان یہ کہتا ہے مدینہ میں رہا کر

جو خلد نہ چاہیں گے مدینے کے عوض میں
لے جائیں گے رضواں انہیں جنت میں مناکر

ہوگا نہ اثر ہم پہ کہ ہم عبد نبی ہیں
ہاں آتش دوزخ ہمیں دیکھےتو جلا کر

کیا مہر قیامت ہمیں دکھلائے گا تیری
سرکار رکھیں گےہمیں دامن میں چھپاکر

مجرم سہی بدکار سہی پر ہے یقیں یہ
ہم خلد میں جائیں گے کہ مولیٰ کے ہیں چاکر

ہے نازوں کی پائی ہوئی یہ امت عاصی
مولیٰ یہ کہیں گے کہ رہا اس کو خدا کر

شب حشر میں اللہ نبی سے یہ کہے گا
محبوب جسے چاہے تو دوزخ سے رہا کر

ہے کون وہ دولت جو نہ دی ان کو خدا نے
وہ کونسی شے ہے جو رکھی ان سے چھپاکر

مختار بنا کر انہیں فرمایا خدا نے
جو چاہے نہ دے اور جسے جوچاہے عطا کر

یہ عزت و رفعت کہ ہر ایک شے پہ خدانے
نام ان کا لکھا نام سے ہے اپنے ملا کر

اللہ نے دی تیرے غلاموں کو یہ قوت
مردوں کو جلا دیتے ہیں لب اپنے ہلاکر

عالم کی خبر رکھتے ہیں گر وہ تو عجب کیا
بھیجا ہے خدا نے انہیں ہر علم سکھا کر

تعلیم دی اک نام کو جبریل امیں نے
عالم کیا اللہ نے خود ان کر پڑھاکر

آجانا مدد کے لیے اے ماہ مدینہ
احباب چلیں قبر میں جب مجھ کو سلاکر

اک جام مئے عشق کا بندہ کو پلا کر
یا شاہ عرب اپنی محبت میں فنا کر

یہ حکم ملا روح امیں کو شب معراج
جبریل ابھی لامرے پیارے کو بلا کر

حاضر در اقدس پہ ہوئے روح معظم
اور عرض یہ کی رحمت عالم سے جگا کر

حاضر ہے براق اور ہے طالب کا تقاضا
ہے حکم کہ لاؤ مرے محبوب کو جاکر

دولھا بنے تیار ہوئے صاحب معراج
اور لے چلے جبریل سواری کو سجا کر

سدرہ پہ تھکے بازوئے جبریل تو آگے
رفرف نے انہیں چھوڑ دیا عرش پہ لاکر

تنہائی سے خائف ہوئے جب شاہ تو رب نے
تسکین دی صدیق کی آواز سنا کر

پھرعرش سے پار اپنے قریں ان کو بلایا
سب کچھ دیا محبوب کو دیدار دکھا کر

محبوب نے کی عرض کہ مولیٰ مری امت
تو آج شب نار جہنم سے رہا کر

جانِ دو جہاں رحمت عالم پہ ہو قرباں
آیا شب معراج غلاموں کو چھڑا کر

وہ روز جمیل رضوی کو ہو میسر
کچھ نعت پڑھے روضۂ پر نور پہ آکر

قبالۂ بخشش